سعودی عرب :حرم مکی کے ستونوں کی تاریخ کی دلچسپ کہانی

0
56

حرم مکی جہاں روزانہ ہزاروں لوگ زیارت کے شوق سے جاتے ہیں اور وہاں گزرے ہوئے تمام لمحات ان کی زندگی کی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں .لیکن اس کے باوجود اس حرم کی زیارت کرنے والے اس کے خوبصورت ستونوں کی تاریخ سے شاید واقف نہیں .ان ستونوں کی تاریخ سے متعلق مورخ کیا لکھتے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں

عباسی اور ترک دور کے رواقوں کی’مطاف توسیعی پراجیکٹ‘ کے تحت اب دوبارہ بحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ سابق سعودی فرما نروا شاہ عبداللہ کے دور میں شروع ہونے والی مسجد الحرام کی توسیع کے بعد اب یہ سعودی قیادت کے زیر اہتمام عالم اسلام کا مشترکہ ورثہ ہے۔مورخین کے مطابق بارہ سو سال پہلے قدیم دالانوں کی تعمیر کے لیے ٹنوں وزنی سنگ مرمر کے ستونوں کو عراق و شام سے مکہ مکرمہ تک لایا گیا لیکن یہ نا قابل یقین اور پراسرار لگتی ہے۔مکہ کے سابق مشیر اور معروف پاکستانی آرکیٹکٹ سلیم بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواقوں کی دوبارہ بحالی کے کام میں سنگ مر مر اور پتھر کے سینکڑوں برس پرانے ستونوں کو نئی تعمیر میں دوبارہ استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم مطاف کے دالانوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے ستونوں کی تعداد دوس سے تین سو جبکہ ان کی اونچائی لگ بھگ پانچ میٹر تھی۔ نئی تعمیر میں ستونوں کا ڈیزائن اور اونچائی تبدیل کی گئی ہے۔ یہ اونچائی عباسی اور ترک دور سے زیادہ ہے۔ ہر ستون کے نیچے ایک بڑا بیس بھی تعمیر کیا گیا ہے تاہم قدیم اور نئے رواقوں کے ڈیزائن میں کوئی خاص فرق نہیں۔

حرم مکی کی مختلف ادوار میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی۔ مطاف کی بڑی توسیع عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں کی گئی۔ ترکوں کے دور میں اس توسیع کے اوپر چھت ڈالی گئی، گنبد اور محراب بنائے گئے۔ اسی لیے حرم کے قدیم دالانوں کو ترکوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بعد ازاں شاہ سعود اور شاہ فہد کے دور میں توسیع ہوئی لیکن سارا توسیعی کام ترکوں اور بنو عباس کے قدیم دالانوں کے باہر کیا گیا تاہم شاہ عبداللہ کے دور میں مطاف کی توسیع کے لیے قدیم دالانوں کو منہدم کرکے دوبارہ بنایا گیا ہے۔عباسی خلیفہ المہدی نے مطاف کے دالانوں کی تعمیر شروع کی۔ اس کے بیٹے موسی الہادی نے اسے مکمل کیا۔ دالانوں کی تعمیر کے لیے شام اور عراق سے سنگ مر مر کے ستون منگوائے گئے۔ ان پر لکڑی کی بیموں کی چھت ڈالی گئی جو تقریباً 800 سال برقرار رہی۔ 1570ء میں لکڑی کی چھت میں آگ لگنے سے سنگ مرمر کے کئی ستون گر گئے اور کچھ چٹخ گئے۔ترک سلطان سلیم دوئم کے حکم پر ٹوٹے ہوئے ستونوں کی جگہ پتھر کے ستون لگائے گئے اور جو ستون چٹخ گئے تھے ان کی مرمت کرتے ہوئے انہیں لوہے کی پتریوں سے باندھا گیا جبکہ کچھ کو پلستر کر کے جوڑا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق قدیم دالانوں میں ہر چار میں سے ایک ستون کی مرمت کی گئی یا اسے پتھر کے ستون سے تبدیل کیا گیا۔ قدیم دلانوں میں عباسی دور کے ستون نصب ہیں تاہم لکڑی کی چھت گرنے کے بعد پکی چھت اور گنبد ترکوں کا کام ہے۔ اس کے لیے لال پتھر وادی فاطمہ سے لائے گئے تھے جو شمیسی کے قریب پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس طرح کے کچھ پتھر اب بھی موجود ہیں۔

مطاف کے دلانوں میں نصب ستون کتنے پرانے ہیں اور کہاں سے لائے گئے، اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ یہ ستون شام اور مصر سے لائے گئے ہوں گے لیکن اب ماہرین کا تحقیق کے بعد اس بات پر اتفاق ہے کہ بیشتر ستون غالباً عراق سے لائے گئے کیونکہ شام یا مصر سے ان ستونوں کا مکہ لانا مشکل تھا۔ کوفہ سے ان ستونوں کو بحری راستے سے لایا جا سکتا ہے کیونکہ کوفہ دریا کے قریب ہے۔ کشتی میں ستون لاد کر سمندر کے راستے سعودی بندرگاہ الشعیبہ تک لایا جانا ممکن لگتا ہے۔ بہ نسبت دمشق یا حلب سے کیونکہ ساحلی پٹی بحیرہ احمر کی طرف ہے۔ یا تو ستونوں کو بحری جہاز پر لاد کر پہلے عقبہ کی بندرگاہ بھی لے جایا جاتا اور وہاں سے جدہ کی بندرگاہ لایا جاتا لیکن تاریخ میں اس راستے کا کوئی ذکر نہیں۔ شام سے زمین کے راستے بھی یہ کام ممکن نہیں تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ ستونوں کو بصرہ سے خلیج عرب کے راستے عمان، حضر موت اور یمن سے ہوتے ہوئے الشعیبہ بندرگاہ لایا گیا ہوگا۔ اس زمانے میں الشعیبہ ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی تھی۔

Leave a reply