حوا کی بیٹی .تحریر:فرح خان              

0
39

"ایک بیٹی”                         
بیٹی کا نام جب زباں پر آتا ہے،ایک میٹھا اور خوبصورت سا جذبہ احساس جاگ جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے رحمتوں اور کرم کے دروازے کھول دیے گئے ہوں۔پر کئی بدنصیبوں کے ماتھے پہ پسینہ، شکن اور ٹھنڈی آہیں ہوتی ہیں۔

"تعلیم و تربیت”                     
وقت کا پہیہ چلتا جاتا ہے،خوش نصیب معصوم کلی جس کو والدین دنیا کے سرد گرم ہواؤں سے بچاتے، بہترین تربیت کے ساتھ اس کو مضبوط، پروقار شخصیت،بہترین تعلیم کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہوں اپنی تربیت پہ بھروسہ کرتے اب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا رہے ہوتے ہیں اس امید پہ کہ انہوں نے پرورش کرتے ہوئے اچھا بیچ بویا ہے جو کبھی سوکھا درخت نہیں بنے گا۔

"بابل کی دعائیں لیتی جا”               
ایک مشکل دور جب اپنی بیٹی کو دل پر پتھر رکھ کر کسی اجنبی کے ساتھ رخصت کرنا،بیٹی کا بیاہ کرنا اور پھر ہر دم خوشیوں کی دعا کرنا،،،پر یہ کیا یہاں بھی کچھ کم طرف، بدترین کی تعداد ہے،،،،وہ جو رشتے کے وقت تو چاند سورج ملا دیتے ہیں،زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں،پر بعد میں طنزیہ جملوں سے بابل سے اپنے گھر تک کے سفر کو پتھریلی راہ یا پل صراط بنا دیتے ہیں۔

"سوالیہ نشان ”                      
ستم ظریفی اور بدبختی کی انتہا تو ان آدم کے بیٹوں پر ہے جو اس شرم و حیا کے پیکر کو خاک بنا دیتے ہیں۔
عورت کو اشتہارات کی زینت،خبر،بے لباس بنا دیا۔
بطور رحمت اتارے جانے والی بیٹی بےحیا یا ہوس کا نشانہ کیوں ہے؟ جبکہ عورت کا وجود اس کی عزت تو اس ہیرے کے مانند ہونا چاہیے جو کوئلے کی کان میں بھی رہ کر اپنی قیمت اور روشنی نہیں کھوتا۔
اس دور میں عورت ایک سوالیہ نشان کیوں بن کر رہ گئی ہے،،،،،اے "حوا کی بیٹی” تلاش کر خود کو اپنے اندر تلاش کر۔

Leave a reply