حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ . تحریر : محمد زمان

0
53

نبوت مل جانے کے بعد نو برس تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتے رہے لیکن تھوڑی سی جماعت کے سواجو مسلمان ہو گئی تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے آپ کی مدد کرتے تھے اکثر کفار مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو ہر طرح کی تکلیف پہنچا دیتے مذاق اڑاتے تھے اور جو ہوسکتا تھا اس سے درگزر نہ کرتے تھے حضور کے چچا ابو طالب بھی انہیں نیک دل لوگوں میں سے تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضور کی ہر قسم کی مدد فرماتے تھے دسویں سال میں جب ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کے کھلے بہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال سے تشریف لائے تھے.

طائف وہاں قبلہ ثقیف کی بڑی جماعت ہے اگر وہ قبلہ مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کو ان تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائے کیونکہ وہاں پہنچ کر قبلہ کے تین سرداروں سے جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے گفتگو فرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ دین کے بعد کو قبول کرتے ہیں یا کم ازکم عرب کے مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نو وارد مہمان کی خاطر مدارت کرتے صاف جواب دے دیا اور نہایت بے رخی اور بد اخلاقی سے پیش آئیں ان لوگوں نے بھی یہ گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قیام فرمالیں.

جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات کی تھی وہ شریف ہوں گے اور مزہ ہے گفتگو کریں گے ان میں سے ایک شخص بولا کہ آپ ہی اللہ کے نبی بنا کر بھیجا ہے دوسرا بولا کہ اے اللہ کے تمہارے سوا کوئی اور ملتا ہی نہیں تھا جس کو رسول بنا کر بھیجتے تیسرے نے کہا کہ میں تجھ سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لیے کہ اگر تم واقعی نبی ہے ہے جیسا کہ دعویٰ ہے تو تیری بات سے انکار کردینا مصیبت سے خالی نہیں اور اگر جھوٹ ہے تو میں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا اس کے بعد ان لوگوں سے ناامید ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا کہ آپ تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھے اگر کسی نے قبول نہ کیا بلکہ بجائے قبول کرنے کے حضور سے کہا کہ ہمارے شہر سے فورا نکل جاؤ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہوں وہاں چلے جاؤ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان سے بالکل مایوس ہوکر واپس ہونے لگے تو ان لوگوں نے شہر کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپ کا مذاق اڑائیں تالیاں پیٹتے پتھر مارے آتا کے آپ کے دونوں جوتے خون سے جاری ہونے سے رنگین ہو گیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس ہوئے جب راستہ میں ایک جگہ ان شریروں سے ۔ اطمینان ہوا تو حضور نے یہ دعا مانگی
اے اللہ مجھے سے شکایت کرتا ہوں اپنی کمزوری اور بے بسی کی اور لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی اے الرحم الراحمین
تو ہی صفات کا رب ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے تو مجھے اس کے حوالے کرتا ہے کسی اجنبی بیگانے کے جو مجھے دیکھ کر ترش رد ہوتا ہے اور منہ چڑھتا ہے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر قابودے دیا اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی اور کی پرواہ نہیں ہے.

تیری حفاظت مجھے کافی ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوگی اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہوجاتے ہیں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا مجھ سے ناراض ہو تیری ناراضگی کا اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت ہے.

@Z_Bhatti1

Leave a reply