حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صبر و تحمّل . ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

خالق کائنات ﷻنے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہ السلام دنیا میں بھیجے ،جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امام الانبیا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا ۔ان میں حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو دوسرے انبیا پر کئی جہتوں سے ایک خاص قسم کی بزرگی اور عظمت حاصل ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ابتلاء و آزمائش کے دشوار گزار اور صبر آزما مراحل سے بھری ہوئی ہے۔ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اس میں سرخروئی اور سربلندی کے لئے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ایثار و قربانی کے انمول اور زرین باب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کئے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزندانِ توحید کے لئے ایثار و قربانی کا بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔ خواہ وہ تبلیغ کی راہ میں ملنے والی مشکلات ہوں یا توحید کی راہ میں نظرِ آتش ہونا، ہجرت کرنا ہو یا اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا، وہ اللہ پاک کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر دم تیار رہنے میں بنی نوع انسان کے لئے بہترین اسوہ موجود ہے۔صبر و استقلال اور دِین پر استقامت کے حوالے سے حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی زندگی ایسے روشن چَراغ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی روشنی قیامت تک اپنی نُورانی کرنیں بکھیرتی رہے گی.اللہ تعالیٰﷻ نے قرآن پاک میں ان کا ذکر کثرت سے فرمایا اور مسلمانوں کوان کی زندگی اور قربانیوں سے سبق لینے کی تلقین فرمائی ہےتاکہ مسلمان ان کے نقش پا کو اپنا کر اپنی دنیا اورآخرت سنوار سکے

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے”اور جب ابراہیمؑ کے پروردگار نے چند باتوں میں اُن کی آزمائش کی، پھر اُنہوں نے اُسے پورا کیا تو اللہ نے اُن سے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔سُورۃالبقرہ

حضرت سیدنا ابراہیم ؑکی زندگی میں آزمائشوں کا ایک سلسلہ رہا، جو صرف اور صرف آپؑ کی شان اور عظمت کے اظہار کیلئے تھا۔آپؑ کے عزم و استقلال پر ہزاروں مرتبہ بھی قربان جائیں تو کم ہے

قارٸین اکرام!حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ دینی حمیّت، ایمانی جذبے، صبر و استقلال اور اپنی جلالتِ قدر کے باعث ہر امتحان اور ہر آزمائش میں پورے اُترے آٸیے ان کے تین بڑے امتحانات کو ملاحظہ فرماٸیے۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا پہلا امتحان اس وقت لیا،جب انہیں بادشاہِ وقت نمرود کے حکم سے دہکتی ہُوئی آگ کی نذر کیا گیا، تو اُس وقت جس ایمانی جذبے اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ اُنہوں نے فرمایا، وہ
انسانی تاریخ میں اُن ہی کا امتیاز اور اُن ہی کا حصّہ ہے

اسی اہم واقعہ کی عکاسی کرتے ہوۓ ایک شاعر کہتا ہے۔

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا،

آج بھی ہمارے لئے کفار و مشرکین کی طرف سے لگائی گئی مکر وفریب اور ظلم و جبر کی آگ گلستاں میں تبدیل ہو سکتی ہے، آج بھی اپنے ایمان کی پختگی سے ہم ان کے جھوٹے غرور کو ملیا میٹ کر سکتے ہیں، لیکن بشرطیکہ ہمیں اپنے سینوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایمان کے چراغ کو روشن کرنا ہوگا، توکل علی اللہ کا اتم مصداق بننا ہوگا، اپنے قلوب سے ہر ایک کا خوف نکال کر اسے محض خوف خدا سے آباد کرنا ہوگا ،تب جاکر وقت کا نمرود بھی ہمارے ایمان کے سامنے سرنگوں اور گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آۓ گا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا دوسرا امتحان اس وقت لیا ،جب انہوں نے اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور چہیتے واکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل کو حرم کی ویران وبیابان سرزمین پر چھوڑ آؤ۔ اس وقت دور دور تک مکہ میں کوئی آبادی نہ تھی۔ ایسی اجاڑ جگہ اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر واپس آجانا جبکہ وہاں نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی دانہ پانی کا نام ونشان، حضرت ہاجرہ ان دنوں حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ،اپنے شیر خوار بچے اور بیوی کو ایسی جگہ چھوڑ آنا سخت ترین امتحان تھا۔ اس امتحان کا مقصد جہاں اپنے محبوب بندے کی آزمائش کرنی تھی، وہاں دوسری طرف کعبہ شریف کی تعمیر اور مکہ مکرمہ کو آباد کرنا بھی مقصود تھا غرض یہ کہ حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں مشکیزہ کا پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں یہا ں تک کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا بھوکی پیاسی ہوگئیں جس کے سبب دودھ بننا بھی ختم ہوگیا اور آپ کے ساتھ ساتھ بچہ بھی بھوک وپیاس سے بلک اٹھا۔ بچے کی تڑپ اور پیاس آپ سے دیکھی نہ گئی۔ اس بے قراری کے عالم میں دوڑ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے یا کوئی انسان ہی نظر آجائے جو اُن کی مدد کرسکے لیکن وہاں کچھ نظر نہ آیا تو اُتر کر دوڑتی ہوئی مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں کہ گوہر مقصود نظر آجائے مگر یہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ اسی بے قراری، تڑپ اور پریشانی میں آپ نے صفا ومروہ کے سات چکر لگائے۔جب آپ بالکل تھک گئیں اور پانی ملنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ حضرت اسماعیل بھی پیاس سے سخت مضطر تھے، آپ نے ایڑی زمین پر پٹخنا شروع کردیا تب اللہ کے فضل سے حضرت اسماعیل کا معجزہ ظہور میں آیا۔ جہاں آپ ایڑی ماررہے تھے، اللہ نے وہاں سے پانی کا ایک چشمہ جاری فرمادیا۔ جب حضرت ہاجرہ نے اس منظر کو دیکھا تو مارے خوشی کے پانی سے کہنے لگیں زم زم یعنی رک جا رک جا۔ جب بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے پانی پیا تو آپ کا دودھ جاری ہوگیا۔ اس وقت ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے آپ سے کہا کہاس بات سے خوف نہ کرو کہ تم ضائع ہوجاؤگی بے شک یہاں بیت اللہ ہے اس کی تعمیر یہ بچہ اور اس کے والد کریں گے ۔بے شک اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا تیسرا امتحان اس وقت لیا،جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین حق کی خاطر ہجرت کی اور اپنے رب سے ایک نیک اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ایک بردبار وحلیم بیٹا عطا فرمایالیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا صبر وحلم اور بردباری واضح کرنا مقصود ہوا، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے ۷؍ذی الحجہ کی رات خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آپ علیہ السلام صبح تفکر وتردد میں مبتلا رہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یا فقط خواب و خیال تو نہیں ، آٹھ تاریخ کا دن گزر جانے پر رات پھر خواب دیکھا۔ صبح یقین کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے۔ اس کے بعد آنے والی رات کو پھر خواب دیکھنے پر صبح اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اسی لئے ۱۰؍ ذی الحجہ کو یوم النحر (ذبح کا دن ) کہا جاتا ہے ۔ آپ نے اس خواب کا ذکر حضرت اسماعیل سے کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اتنی بڑی آزمائش کا بردباری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرنے کیلئے خود کو پیش کردیا۔یہاں چونکہ مطلوب ومقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش مقصود تھی، اسلئے جب انہوں نے حضرت اسماعیل کے حلقوم پر چھری رکھی اور اسے چلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل امیں کے ساتھ جنت سے ایک دنبہ بھیجا جسے آپ نے حضرت اسماعیل کی جگہ لٹا دیا اور حضرت اسماعیل کو اس مقام سے ہٹا لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو قربان ہونے سے بچا لیا لیکن جانور کی قربانی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے صبح قیامت تک کیلئے قربانی کے عمل کو جاری فرمادیا ہے جو ہمیں جد الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کی قربانیوں اور آزمائشوں کی یاد دلاتی ہے

ان تینوں واقعات سے ہمیں یاد بسق ملتا ہے کہ ہم بلا چون وچرا حکم الہی کے آگے سرتسلیم خم کردیں،بدون اشکال و اعتراض فرامینِ رب کو بجالانے والے بن جائیں!

اللہ پاکﷻ آپ کا اور آپکے عزیز و اقارب کا حامی و ناصر ہوآمین!

Leave a reply