امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تحریر : محمد بلال

0
72

شرم و حیا کے پیکر ذُوالنُّورین خلیفہ ثالث( تیسرے خلیفہ)امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ

آپ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔

آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں (پیارے آقا ﷺ کے وه صحابہ جنہیں زندگی میں ہی جنت  کی بشارت دے دی گئی تھی)

آپ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں ہوتا ہے
آپ کو کاتب وحی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے
آپ رضی اللّه تعالی عنہ کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے

آپ رضی اللّه تعالی عنہ نے خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر رضی اللّه تعالی عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا، آپ  ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہیں

پیکر حیا:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے باحیا تھے حتی کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا:
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ

اے عائشہ رضی اللّه تعالی عنہ کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

(صحیح مسلم 6209)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أرحَمُ أمَّتي بأمَّتي أبو بَكْرٍ ، وأشدُّهم في دينِ اللَّهِ عُمرُ وأصدقُهُم حياءً عُثمانُ”

میری امت کے ساتھ سب سے زیادہ رحم دلی کرنے والے امتی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور ان میں سب سے سچے حیادار عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں

( الترمذی3790)

ذُوالنُّورین:

خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہ رضی اللّه تعالی عنہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللّه تعالی عنہ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنی رضی اللّه تعالی عنہ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

حضرسیدہ رقیہ رضی اللّه تعالی عنہ کی وفات کے بعد پیارے آقا محمد مصطفی ﷺ
نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثوم رضی اللّه تعالی عنہ کا نکاح بھی سیدنا عثمان غنی
رضی اللّه تعالی عنہ سے کر دیا
دوسری بیٹی سیدہ حضرت ام کلثوم
رضی اللّه تعالی عنہ کی وفات کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور ایک روایت کے مطابق حضور اقدس ﷺ
نے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں
(معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116

عشرہ مبشرہ:
حضرت ابوموسی’
اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللّه کے پیارے نبی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے اس کے دروازے پر رہنے کا حکم دیا،چنانچہ ایک شخص آئے اور انہوں نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت بھی سنادو،میں نے دیکھا تو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔
پھر ایک اور شخص آئے اور انہوں نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اجازت دے دو اور انہیں جنت کی خوشخبری سنادو،میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔
پھر ایک اور شخص آئے اور انہوں نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ائذَنْ له و بشِّرْه بالجنةِ معها بلاءٌ يٌصيبُه

اجازت دے دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی سنادو”اور انہیں آگاہ کرو کہ ان پر ایک مصیبت نازل ہوگی،میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔

(صحیح بخاری 7097)

ہجرتِ مدینہ کے بعدمسلمانوں کومیٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی۔ شہرمدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی شخص تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے یہودی مالک کو منہ مانگی قیمت دے کر یہ کنواں خریدلیا اور تمام انسانوں کے لئے وقف کردیاجس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کوجنت کی بشارت دی۔

( الترمذی 3703)

حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي عُثْمَانُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفِيقِي فِيهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ( ساتھی ) ہے، اور میرے رفیق ( ساتھی ) اس میں عثمان بن عفان ہیں ۔
(سنن ابن ماجہ 109)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : "صَعِدَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أُحُدًا ومعهُ أبو بَكْرٍ، وعُمَرُ، وعُثْمانُ، فَرَجَفَ، وقالَ: اسْكُنْ أُحُدُ – أظُنُّهُ ضَرَبَهُ برِجْلِهِ -، فليسَ عَلَيْكَ إلَّا نَبِيٌّ، وصِدِّيقٌ، وشَهِيدانِ.

ایک روز نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے،آپ کے ساتھ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے،تو پہاڑ کانپنے لگا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احد تھم جاؤ تمہارے اوپر نبی،صدیق اور دو شہید ہیں

(صحیح بخاری 3699)

دورِ خلافت: 
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ یَکُم محرّم الحرام 24 ہجری کو مَسندِ خِلافت پر فائز ہوئے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں اَفریقہ، ملکِ روم کا بڑا عَلاقہ اور کئی بڑے شہر اسلامی سلطنت کا  حصہ بنے۔ 26 ہجری میں مسجدِ حرام کی توسیع جبکہ 29 ہجری میں مسجدِ نَبَوی شریف  کی توسیع  کرتے ہوئے پتھر کے ستون اور ساگوان کی لکڑی کی چھت بنوائی

جامع القرآن:

آپ رضی اللّه تعالی عنہ
کی حیات مبارکہ کا اہم ترین کارنامہ خدمتِ قرآن کے حوالے سے ہے۔ عرب قرآن کو مختلف لہجوں اور قرأتوں سے تلاوت کرتے تھے۔ فتوحات کی وسعت کی وجہ سے یہ سہولت غلط فہمیوں کا باعث ہوسکتی تھی، آپ نے اپنی ’’فراست باطنی‘‘ سے پوری امت کو قرأتِ قریش پر جمع کردیا اور یوں آپ ’’جامع القرآن‘‘کہلائے۔

وصال مبارک (شہادت): 
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نےبارہ سال خلافت پر فائز رہ کر  18 ذُوالحجۃ الحرام سن 35 ہجری میں بروزِ جمعہ روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی طویل عمر پاکر نہایت مظلومِیَّت کے ساتھ جامِ شہادت نَوش فرمایا۔

اللّه پاک ہمیں حضرت عثمان غنی
رضی اللّه تعالی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین

مصنف آزاد کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیو سٹ ہیں
@Bilal_1947

Leave a reply