بیانیے میں تضاد ،اندرونی لڑائیاں، ن لیگی اراکین پھٹ پڑے، ڈیڈ لائن دے دی

0
37

بیانیے میں تضاد ،اندرونی لڑائیاں، ن لیگی اراکین پھٹ پڑے، ڈیڈ لائن دے دی

بیانیے میں تضاد اور اندرونی لڑائیوں سے تنگ مسلم لیگ ن کے 7 پارلیمانی ارکان نے پارٹی قیادت کو 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دے دی ،

جس بیانیہ کا بوجھ شہباز شریف نہیں اٹھاسکتے اس کوپارٹی کس طرح لے کرچل سکتی ہے ،اگر مزاحمت کرنی ہے تو نوازشریف کو واپس آنا ہوگا ارکان نے مطالبہ کیا کہ صدرمسلم لیگ ن شہبازشریف ،خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کو پارٹی چلانے کے اختیارات دیے جائیں چوہدری نثار علی خان کو پارٹی میں واپس لانا پارٹی کے لیے مفید ہوگا،مریم نواز اور شہبازشریف کی لڑائی کا نتیجہ صرف تباہی ہوگا اہم رہنما ٹی وی پر آکر اعتراف کررہے ہیں کہ پارٹی میں گروپس ہیں،بلاول نے پنجاب سے الیکشن مہم کا آغاز کردیا ہے یہی صورتحال رہی تو پنجاب سے بھی ن لیگ کا صفایا ہوجائے گا۔

نجی ٹی وی کے مطابق7 اراکین اسمبلی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے خاموش اراکین اسمبلی ہاوس آف شریف کو بڑا سرپرائز دینے کو تیار ہوگئے ہیں۔ 7 اراکین اسمبلی نے پارٹی کو 31 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دے دی جس کی وجہ سے معاملہ ن،م اور ش سے آگے نکل گیان لیگ کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی جس کی وجہ سے ن سے ش نہیں بلکہ ن لیگ سے کئی اراکین نکلنے کو تیار ہوگے ہیں جس کی وجہ سے مائنس شریف خاندان ایک نئے گروپ کے بننے کے بھی امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔پارٹی اراکین اپنے صدر شہبازشریف سے بھی مایوس ہوئے ہیں جبکہ خواجہ آصف،شاہد خاقان عباسی اور چوہدری نثار کے انٹرویوز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

مسلم لیگ ن کے ارکان پارٹی بیانیے پر کنفیوژ ہیں کہ مفاہمت ہوگی یا مزاحمت؟؟؟ارکان کی ملاقات میں طے کیا گیا کہ اب فیصلہ کیا جائے کہ پارٹی کو کس نے اور کیسے چلانا ہے، ن لیگی اراکین اگر مزاحمت کرنی ہے تو نوازشریف کو واپس آنا ہوگا،لندن بیٹھ کر تقریریں کرنا آسان ہے،پاکستان میں حالات کا مقابلہ ہمیں کرنا ہے، وہ کام کیوں کیا جارہا ہے جو پارٹی کے خمیر میں ہی شامل نہیں، مریم نوازخود اعتراف کرچکی ہیں کہ ان کے والد کے بیانیے کا بوجھ اٹھانا سب کے بس کی بات نہیںجس بیانیے کے ساتھ شہبازشریف نہیں چل سکتے اس پر اور کون چلے گا؟پارٹی میں پارٹی صدر کی بھی کوئی وقعت نہیں شہبازشریف کے بیانات کو پارٹی کے دیگر اراکین سرعام رد کررہے ہیںنوازشریف کے داماد نے بھی پارٹی کے دو بیانیوں کا اعتراف کیااگر مزاحمت کے راستے پر چلنا ہے تو نوازشریف کو واپس آنا چاہیے اگر مفاہمت کے راستے پر چلنا ہے تو شہبازشریف کو مکمل اختیارات دیے جائیں

تبدیلی سرکار نے تبدیلی کے نام پر عوام کو رسوا کر دیا ہے

 وہ والا اسد عمر کہاں ہے جو کہتا تھا پٹرول 40 روپے لیٹر کردوں گا؟

حریم شاہ کو کریں گے بے نقاب، کھرا سچ کی ٹیم کا بندہ لڑکی کے گھر پہنچا تو اسکے والد نے کیا کہا؟

مبشر صاحب ،گند میں نہ پڑیں، ایس ایچ او نے حریم شاہ کے خلاف مقدمہ کی درخواست پر ایسا کیوں کہا؟

حریم شاہ مبشر لقمان کے جہاز تک کیسے پہنچی؟ حقائق مبشر لقمان سامنے لے آئے

حریم شاہ کے خلاف کھرا سچ کی تحقیقات میں کس کا نام بار بار سامنے آیا؟ مبشر لقمان کو فیاض الحسن چوہان نے اپروچ کر کے کیا کہا؟

نیازی اینڈ کمپنی نے پاکستان کا مستقبل مخدوش کردیا، مائزہ حمید

جب تک یہ حکومت رہے گی پاکستان کیلئے کوئی اچھی خبر کی توقع نہ رکھے۔مائزہ حمید

یوٹرن خان حکومت کی موجیں ختم ہونے کے قریب ہیں،مائزہ حمید

7 پارٹی ارکان نے شکوہ کیا کہ پارٹی کو 12 کا ٹولہ چلا رہا ہےمنتخب اراکین اسمبلی کو مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا منتخب اراکین اسمبلی کی وجہ سے سے ہی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملتی ہیں مخصوص نشستوں پر آنے والے منتخب اراکین کے لیے بھی اگلا الیکشن مشکل بنا رہے ہیںپارٹی کو اتفاق فونڈری نہ سمجھا جائے اپنے سیاسی کیرئیر کو ایک خاندان کے مفاد کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے فوج مخالف بیانیے کے ساتھ اگلے الیکشن میں نہیں جاسکتے فوج مخالف بیانیے کے ساتھ حکومت میں آنا ممکن نہیں اس لیے اداروں سے بات چیت کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ شہبازشریف ،خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کو پارٹی چلانے کے اختیارات دیے جائیں چوہدری نثار علی خان کو پارٹی میں واپس لانا پارٹی کے لیے مفید ہوگاشہبازشریف کو بھی اپنی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا اگر شہبازشریف بھائی کو نہیں چھوڑ سکتے تو بھائی کے بیانیے کو بھی اپنائیںپارٹی کے مستقبل کے لیے ڈبل گیم تباہی اور بربادی ہی لائے گی ۔شریف خاندان کے علاوہ پارٹی قائدین کو بھی پارٹی کے مستقبل کا سوچنا ہوگامریم نوازٹویٹر اور سوشل میڈیا کی سیاست کرنا چاہتی ہیں ٹویٹر اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہےی کم جنوری 2022 سے الیکشن مہم کا آغاز ہوجائے گا کنفیوژ بنانیے سے الیکشن مہم کا آغاز ممکن نہیں2022 میں الیکشن کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے جب پارٹی آپس میں دست و گریبان ہے تو الیکشن کا مطالبہ کردیا گیا

انہوں نے کہاکہ 2022 میں الیکشن کے مطالبے سے قبل اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز سے مشورہ نہیں کیا گیاجن کی کوئی سیاسی اوقات نہیں وہ اس وقت پارٹی کے بڑے بن گئے ہیں12 کے ٹولے کو ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کیوں دیاجارہا ہے؟ایک طرف الیکشن کا مطالبہ تو دوسری طرف حکومت مخالف جلسوں کا اعلان کردیا گیاپارٹی پہلے ہی جلسہ جلسہ کھیل کر تھک چکی ہےبتایا جائے کہ مزاحمت کی سیاست سے ہمیں کیا ملا؟گلگت بلتستان ،کشمیر اور سیالکوٹ میں بدترین شکست ہوئی مزاحمت کا بیانیہ صرف لندن میں بیٹھے ہوں کو سوٹ کرتا ہ ےبلاول نے پنجاب سے الیکشن مہم کا آغاز کردیا ہےیہی صورتحال رہی تو پنجاب سے بھی ن لیگ کا صفایا ہوجائے گاانہوں نے کہاکہ مریم نواز اور شہبازشریف کی لڑائی کا نتیجہ صرف تباہی ہوگااہم رہنما ٹی وی پر آکر اعتراف کررہے ہیں کہ پارٹی میں گروپس ہیںپارٹی کے اہم رہنما ٹی وی پر اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے دعوے کررہے ہیںجب 2023 میں شکست کی پیشنگوئی کی جارہی ہے تو الیکشن مہم کس منہ سے چلائیں گے؟نوازشریف کو پارٹی کے مستقبل کی نہیں صرف اپنی ذات کی فکر ہے۔

Leave a reply