ہیر رانجھا،پاکستان کی پہلی پنجابی فلم

0
46

چناں کتھے گزاری اے رات وے

ہیر رانجھا
پاکستان کی پہلی پنجابی فلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی پہلی پنجابی فلم 1932 میں لاہور کے سنیما مالک حکیم رام پرشاد نے پلے آرٹ فوٹو ٹون کے بینر تلے، ” حور پنجاب ” کے نام سے بنانا شروع کی. بعد میں اس کا نام ” ہیر رانجھا” کردیا گیا. ہیر انوری بیگم بنی اور رانجھارفیق غزنوی،(دونوں نے بعد میں شادی کرلی تھی) کیدو ایم اسماعیل بنے جن سے یہ کردار چپک گیا، وہ بعد میں بھی کیدو بنتے رہے. فلم کے ہدایت کار اے آر کاردار تھے. فلم لاہور کے امپیریل تھیٹر میں لگی( جس کا نام بعد میں ریجنٹ سنیما رکھ دیا گیا تھا) تیکنیکی ناتجربہ کاری کی وجہ سے فلم کی فوٹو گرافی اور ساؤنڈ دونوں ناقص رہیں جس کی وجہ سے فلم فلاپ ہوئی. ویسے بھی یہ پنجابی اردو ملی جلی تھی. بہر حال پنجابی فلموں کا آغاز ہوگیا.

1932 سے 1947 تک 37 پنجابی فلمیں بنیں. پنجابی فلم سازی کے مراکز کلکتہ، لاہور اور بمبئی رہے.

پاکستان میں فلموں کا کوئی آرکائیو یا لائبریری نہیں ہے جہاں یہ فلمیں، ان کے گانے، بک لیٹ، پوسٹر محفوظ ہوں. دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے ایسی کچھ چیزیں محفوظ کی ہیں لیکن مکمل ریکارڈ دستیاب نہیں. ایسی صورت حال میں مشہور فلمی ریسرچر فیاض احمد اشعر نے اس مشکل ٹاسک پر کام شروع کیا. ان کی دُھن اور دوسروں سے تعاون کو سب مانتے ہیں اس لیے اکثر کلیکٹرز نے ان سے بھی تعاون کیا-

اس طرح وہ ان فلموں کے بیشتر گانے جمع کرنے میں کامیاب رہے اور وہ سب اس کتاب”ابتدائی پنجابی فلمی گیت” میں پیش کردئیے. ایک ایک گیت کی تلاش کیلئے انہیں کہاں کہاں بھٹکنا اور خجل خوار ہونا پڑا، اس کا اندازہ کوئی ریسرچر ہی لگا سکتا ہے. گیت ہی نہیں، انہوں نے ہر فلم بنانے والی کمپنی، ہدایت کار، موسیقار، اداکاروں اور گلوکاروں کے نام بھی دے دئیے ہیں. اس طرح یہ فلمی تاریخ بھی ہے اور اس کی ادبی اہمیت بھی ہے.

یہ جس قدر محنت طلب کام تھا اور ریسرچ کا نتیجہ جتنا وقیع ہے، اس سے آدھے کام پر بھی ایم فل بلکہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مل جاتی ہیں. ( یہ الگ بات ہے کہ اب بھاری فیسیں بھی دینا پڑتی ہیں)

1932 سے 1947 کی پنجابی فلمیں :

1932 ہیر رانجھا( لاہور)
1932شیلا عرف پنڈ دی کڑی (کلکتہ)
1935 مرزا صاحباں عرف عشق پنجاب( کلکتہ)
1938 ہیر سیال( کلکتہ)
1939 مرزاصاحباں( بمبئی)
سوہنی کمہارن (کلکتہ)
سسی پنوں( کلکتہ)
سوہنی مہینوال (لاہور)
بھگت سورداس (کلکتہ)
پورن بھگت( کلکتہ)
گل بکاؤلی( لاہور)
1940 یملا جٹ( لاہور)
متوالی میراں( کلکتہ)
لیلے’ مجنوں( کلکتہ)
دلا بھٹی( لاہور)
جگا ڈاکو( کلکتہ)
علی بابا( بمبئی)
1941 چترا بکاؤلی( لاہور)
چنبے دی کلی( کلکتہ)
کڑمائی (بمبئی)
مبارک (کلکتہ)
میرا پنجاب (کلکتہ)
میرا ماہی (لاہور)
چودھری (لاہور)
سہتی مراد (لاہور)
پٹواری( لاہور)
پردیسی ڈھولا (کلکتہ)
1942 منگتی (لاہور)
راوی پار (لاہور)
گوانڈھی( لاہور)
پٹولا (کلکتہ)
1943 اک مسافر (لاہور)
1944 گل بلوچ (لاہور)
کوئل (لاہور)
1945 نکھٹو (لاہور)
1946 کملی (لاہور)
1947 وساکھی.. لاہور میں بننا شروع ہوئی لیکن فسادات کے باعث بمبئی منتقل کردی گئی اور 1950 میں ریلیز ہوسکی دو اور فلمیں کالیاں راتاں اور ماہیا بننے کا بھی اعلان ہوا. کچھ کام ہوا، گیت بھی ریکارڈ ہوئے لیکن فلمیں بن نہ سکیں.
ماہیا کی خاص بات یہ تھی کی اس کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی. لیکن یہ سامنے نہ آسکی. اس کے بعد انہوں نے کسی پنجابی فلم کا میوزک نہیں دیا.

آپ کو حیرت ہوگی کہ اس دور کے فلمی (اور بعض غیر فلمی ) گیتوں کے مقبول مکھڑوں پر بعد کے شاعروں بالخصوص خواجہ پرویز نے خوب ہاتھ صاف کیا . مثلا” یہ مکھڑے :
ماہی میرا غصے غصے
پلا مارکے بجھا گئی دیوا
چناں کتھے گزاری اے رات وے
کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری
بتی بال کے بنیرے آتے رکھنی آں
ڈھول جانی ساڈی گلی آویں
بھاویں جانے تے بھاویں نہ جانے
چھڈ میری وینی نہ مروڑ
لما لما باجرے دا سٹا

Leave a reply