موروثیت ۔۔۔ زین اللہ خٹک
مشرق خصوصاً انڈو پاک میں موروثیت ہر شعبۂ زندگی میں نفوذ کرگئی ہے۔ موروثیت صرف سیاست میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں موجود ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں معاشی، معاشرتی اور سماجی انصاف نہیں۔ ہم عموما سنتے ہیں کہ آباؤ اجدا کی روایات اور نقش قدم نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ مولوی کا بیٹا مولوی، کلرک کا بیٹا کلرک، استاد کا بیٹا استاد، چوکیدار کا بیٹا چوکیدار، پیر کا بیٹا پیر، چیئرمین کا بیٹا چیئرمین ،سیاست دان کا بیٹا سیاست دان یہ سب موروثیت کی مثالیں ہیں۔ جن کو عام زبان میں خاندانی پیشہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں سوچ وفکر کی کمی ہے۔ لہذا ہم ہر شعبۂ زندگی میں روایات پسند واقع ہوئے ہیں۔ روایات کو آگے بڑھاتے ہیں۔اور یہ سب سے آسان کام ہے۔ کیونکہ ہر کردار نے روابط پیدا کیے ہیں۔ ان آسانیوں کی وجہ سے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو ایڈجسٹ کرنا آسان ہو تا ہے۔ مثال کے طور پر چوکیدار ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے بیٹے کو با آسانی اپنی جگہ ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔ بیٹے کے لیے بھی چوکیداری آسان ہوتی ہے۔ مولوی صاحب اپنی جگہ بیٹے کو ایڈجسٹ کرتے ہیں تاکہ یہ سیٹ کسی اور کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔ اسی طرح سیاست دان بھی اپنے بچوں کو سیاسی میدان میں اتارتے ہیں۔ تاکہ جانشین کا کردار ادا کریں۔ اس وقت پاکستان کی اسمبلیوں میں 53 فیصد موروثی سیاست دان موجود ہیں۔ ان موروثی سیاست دانوں کی وجہ سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوتے کیونکہ ان کا تعلق عوام سے نہیں۔ بلکہ یہ اسلام آباد ، پشاور ، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے پوش علاقوں کے بنگلوں میں عالی شان زندگی گزارتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں فصلی بٹیروں کی طرح نازل ہوتےہیں۔ مقامی لوگوں اور مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ پہلے زمانے میں ہر گاؤں میں چند کرائے کے ایجنٹ ملتے تھے۔ آج کل سوشل میڈیا نے آسانی پیدا کردی۔ ان موروثی سیاست دانوں کی وجہ سے سیاست اور سیاسی پارٹیاں فروغ نہیں پاتیں۔ یوں یہ موروثی سیاست دان ہر پارٹی کی ضرورت بن جاتے ہے۔ یہ موروثی سیاست دان الیکشن سے پہلے پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔ عوام بھی ذہنی طور پر موروثیت کی شکار ہوتی ہیں لہذا موروثیت جیت جاتی ہے۔ موروثیت ہمارا موروثی مسئلہ ہے۔ موروثیت کی شکست اس صورت ممکن ہے جب معاشرے میں معاشی، معاشرتی اور سماجی انصاف ہو اور سوچنے کے زاویوں کو بدل کر کے رکھ دے۔