حیوان کو انسان سے خطرہ: تحریر:عمران اے راجہ

0
28

اللہ نے بنی نوع انسان کے ساتھ کروڑوں چرند پرند بھی پیدا کیے جن کی حیات و افزائش، نسل انسانی کے ساتھ چلتی اور معدوم ہوتی رہی۔
جب میں ساؤتھ افریقہ شفٹ ہوا تو خاصی حیرانگی ہوئی کہ یہاں چند جانور ایسے ہیں جن کی حفاظت ہمارے وی آئی پیز کی طرح کی جاتی ہے اور انتہا تب ہوئی جب اس جانور کا شکار کرنے والے شکاری جنہیں رینجرز کی زبان میں “پوچرز” کہا جاتا ہے مقابلے کے بعد شدید زخمی اور کچھ کو ہلاک کر دیا گیا۔ جی ہاں جان سے مار دیا گیا۔
یہ حفاظتی اقدامات تھے “گینڈے” کو شکار سے بچانے کے لیے۔ ڈائنوسارز کے زمانے سے چل رہے چند جانوروں میں اب صرف ہاتھی اور گینڈا ہی باقی رہے اور گینڈا کی نسل اس کے دانت کی وجہ سے انتہائی شدید خطرات سے دوچار ہے۔
کچھ بعید نہیں اگر جانور زبان رکھتے تو ضرور کہتے کہ “انسان کس قدر حیوان اور وحشی ہے”۔ جانور کا بھی کرۂ ارض پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ عام انسان کا مگر کیا کیجیے۔
گینڈے بارے تھوڑی تحقیق اور معلومات آپ سے شیئر کرتا ہوں جو کم ہی لوگوں کو معلوم ہیں اور کیسے ساؤتھ افریقن حکومت انہیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔۔
آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جنگلات کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ جنگلی حیات کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔ زیادہ تر جنگلات میں جنگلی جانور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جنگلات ان چند جنگلات میں سے ایک ہیں جہاں اب بھی مختلف اقسام کے جنگلی جانور موجود ہیں۔اس لیے یہ تمام دنیا میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں بہت سے ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو اب باقی دنیا میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ انھی جانوروں میں سفید اور سیاہ گینڈے بھی شامل ہیں۔ گینڈوں کی نسل گزشتہ کئی دہائیوں سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ مختلف جرائم پیشہ افراد ان کے سینگ کے حصول کے لیے ان کا شکار کرتے ہیں اور ان کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ جسامت کے لحاظ سے یہ ایک بکتر بند ٹینک کی طرح ہے۔ یہ لاکھوں سال سے ہمارے ساتھ اس دنیا میں موجود ہے، لیکن اب اس کو ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ 1970 تک گینڈوں کی تعداد 70،000 تھی جو اب 27،000 کے قریب ہے۔

جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے سفید اور سیاہ گینڈے میں اگرچہ رنگت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ دونوں ہی سرمئی رنگت کے ہوتے ہیں لیکن ان کو ان کی مختلف خصوصیات کی وجہ سے یہ نام دیے گئے ہیں۔
سفید گینڈا ہاتھی کے بعد زمین پر پایا جانے والا دوسرا بڑا ممالیہ جانور ہے۔ سفید گینڈا 1900 کی دہائی کے اوائل میں 100 سے بھی کم رہ گئے تھے۔ لیکن عالمی محکمہ تحفظ جنگلی حیات اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے اب ان کی تعداد بڑھ کر 17،212 اور 18،915 کے درمیان ہوگئی ہے۔
سیاہ گینڈے کا سائنسی نام ڈیسورس بائی کارنس ہے۔ یہ سفید گینڈے کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ پودے اور جڑی بوٹیاں کھاتے ہیں۔ خاص طور پر ببول ان کی پسندیدہ غذا ہے۔ سیاہ گینڈوں کی آبادی 1970 میں 70،000 سے کم ہو کر 1995 میں صرف 2،410 رہ گئی تھی۔ لیکن افریقی محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی مسلسل کوششوں کی بدولت اس وقت ان کی تعداد 5،366 اور 5،627 کے درمیان موجود ہے۔

معاشی ترقی اور آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے جنگلات کو کاٹ کر نئے شہر اور کالونیاں قائم کی جانے لگیں۔ اس عمل سے جنگلی حیات کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کیونکہ ان کے قدرتی گھر ختم ہونا شروع ہو گئے، جہاں یہ مل جل کو گروہوں کی شکل میں رہتے تھے۔ اب یہ الگ تھلگ علاقوں میں تقسیم ہو گئے، جہاں ان کی افزائش کو خطرہ ہے۔ بہت کم گینڈے قومی پارکوں اور مصنوعی جنگلوں میں زندہ رہ پاتے ہیں۔

جنگلی جانوروں خاص طور پر گینڈوں کو بہت سے لوگ غیر قانونی طور پر شکار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ شوقیہ طور پر بے رحمانہ طریقے سے جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ جس سے ان کی نسل تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

شوقیہ شکار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تعداد ان افراد کی بھی ہے جو ان کا سینگ حاصل کرنے کے لیے ان کا شکار کرتے ہیں۔ ایشیاء اور باقی دنیا میں پائے جانے والے گینڈوں کا ایک سینگ ہوتا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے گینڈوں کے دو سینگ ہوتے ہیں۔ اسی لیے انھیں زیادہ شکار کیا جاتا ہے۔ لوگ یہ سینگ روایتی دوائیوں کے استعمال یا بیش قیمت تحفے کے طور پر دینے کے لیے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ چین اور ویتنام کی منڈیاں ان کے سینگ کی بڑی خریدار ہیں۔ چین کی ایک اہم مارکیٹ میں اس کے سینگ سے بنے نوادرات فروخت کیے جاتے ہیں۔ ویتنام میں اس کو کینسر کے علاج کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا سینگ جسم سے زہریلے مادوں کو ختم کرتا ہے، اس لیے سنگین سے سنگین بیماری میں بھی شفا دیتا ہے۔
دنیا بھر میں گینڈوں کی آبادی کا تقریبا 80 فیصد جنوبی افریقہ کے کروگر نیشنل پارک میں موجود ہیں ۔گذشتہ پانچ سالوں میں 5100 سے زائد گینڈے غیر قانونی طور پر شکار ہوئے جن میں سے 50 فیصد صرف کروگر نیشنل پارک میں شکار ہوئے۔ لیکن افریقہ کے جنگلات میں اب ان کی حفاظت کے لیے رینجرز، ڈرون کیمروں اور جہاں ضرورت ہو تو مسلح افواج کی بھی مدد لی جا رہی ہے۔

اگرچہ غیر قانونی شکار پر پابندی اور مصنوعی طریقوں سے افزائش نسل کر کے ان کی آبادی کو بڑھانے کی کوشش بہت حد تک کامیاب ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ ہمیں اپنے قدرتی ماحول کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ اس کا شکار زیادہ تر سینگ کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے، اس لیے صارفین کی مانگ ختم ہو جائے تو شکاریوں اور سمگلروں کی اس میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ کم سے کم جنگلات کی کٹائی ہو۔ اور یہ قدرتی ماحول میں نسل برقرار رکھ سکیں۔

‏Imran A Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He has been writing for different forums. His major areas of interest are Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1

Leave a reply