ہمت اور شجاعت کا صحرائی دار فانی سے کوچ کر گیا ازقلم غنی محمود قصوری

0
66

تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں و سید علی شاہ گیلانی کے قریبی ساتھی چیئرمین تحریک حریت جناب محمد اشرف صحرائی گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں میں 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے اناللہ وانا الیہ راجعون یقینا ان کی وفات تحریک آزادی کشمیر کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے وہ ادہم پور سینٹرل جیل میں 2020 سے قید تھے

منگل کی دوپہر ان کو ناسازی طبع کے باعث جی ایم سی جموں میں لایا گیا ان کی صحت کے بارے جیل حکام نے انکے اہل خانہ کو مطلع کیا جبکہ مذہد ناسازی طبع پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور دار فانی سے کوچ کر گئے اناللہ وانا الیہ راجعون ان کی وفات کی اطلاع رات دس بجے نشر کی گئی

جبکہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کوویڈ ریپڈ ٹیسٹ کرایا گیا تھا جو منفی آیا جس کے بعد انکا پی ٹی سی آر کرایا گیا جس کی رپورٹ کا انتظار تھا مگر وہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے رب کے حبیب پہنچ گئے محمداشرف صحرائی سید علی شاہ گیلانی کے بعد تحریک حریت کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں جنکی زندگی زیادہ تر زندگی انڈین جیلوں میں گزری ہے انڈیا نے ان کو لاکھ پیشکشیں کیں مگر ہر بار انہوں نے ساری پیشکشیں ٹھکڑا دیں

ان کی پیدائش 1944 کو موقع ٹکی پوری لولاب ضلع کپوارہ میں شمس الدین خان کے ہاں ہوئی وہ دو بڑے بھائیوں سے چھوٹے ہیں محمد یوسف خان اور قمر الدین خان ان سے بڑے ہیں جو کہ دونوں بالترتیب 2016 اور 2009 میں دار فانی سے کوچ کر گئے یوسف صحرائی مرحوم نے ابتدائی تعلیم ٹکی پورہ اپنے آبائی گائوں سے حاصل کی جبکہ میٹرک 1959 میں سوگام لولاب سے پاس کیا جس میں انہوں نے ٹاپ کیا اور ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انہوں نے ایم اے اردو کیا کشمیر کی آزادی کیلئے انہوں نے
زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا جس کے باعث وہ بہت جلد مقبول ہوتے چلے گئے ان کا شاعری خاصا لگاؤ تھا اور انہوں نے آزادی کشمیر و فن و علوم پر بے شمار شاعری کی انہوں نے اپنے اندر کے بہترین صحافی کو باہر نکالا اور طلوع نامی میگزین سوپور سے 1969 میں نکالنا شروع کیا جس پر انہیں انڈین گورنمنٹ کی طرف سے کافی تکالیف برداشت کرنا پڑیں مگر انہوں نے مردانہ وار مقابلہ کرکے طلوع آزادی کا سفر جاری رکھا

مرحوم اشرف صحرائی کے سب سے چھوٹے بیٹے جنید صحرائی نے 2018 میں آزادی کشمیر کی خاطر انڈین فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیا اور 2 سال انڈین فوج کو خوب ناکوں چنے چبوائے اور بالآخر 19مئی 2020کو انڈین فورسز کیساتھ جھڑپ میں عہدہ شہادت پر فائز ہو گئے مرحوم صحرائی 1959سے سید علی شاہ گیلانی کے دست راست بن گئے تھے

1960میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بھی بنے جبکہ انہیں پہلی بار انڈین گورنمنٹ کے خلاف سرگرمیوں کی پاداش میں 22 سال کی عمر میں 1965 میں وزیر اعلیٰ غلام محمد صادق کی جانب سے گرفتار کروایا گیا انہوں نے پابندیوں نظربندیوں کی پرواہ کئے بغیر طلوع نامی میگزین پر ہی فوکس رکھا اور کشمیریوں میں جزبہ آزادی بیدار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا

مگر سخت پابندیوں کے باعث انہیں 1971 میں میگزین بند کرنا پڑا 2004 میں تحریک حریت کی بنیاد ڈالی گئی تو جماعت اسلامی سے ان کے تعلقات اچھے نا رہے جس کی بدولت سید علی شاہ گیلانی اور مرحوم صحرائی کو جماعت سے برطرف کر دیا گیا مگر انہوں نے ہمت نا ہاری اور انہیں تحریک حریت کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا

2016-17 میں نیشنل انٹیلیجنس انڈیا نے انہیں احتجاجی کلینڈر جاری کرنے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا گیا
19 مارچ 2018 کو انہیں تحریک حریت مجلس شوریٰ کا چیئر مین منتخب کیا گیا جبکہ اگلے تین سال وہ چیئرمین تحریک حریت رہے سید علی شاہ گیلانی نے تحریک حریت سے کنارہ کشی اختیار کر لی19 اگست 2019 کو انڈین گورنمنٹ فیصلے کے بعد سید علی شاہ گیلانی کو نظر بند کر دیا گیا

جبکہ 12 جولائی 2020 کو مرحوم صحرائی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا تب سے وہ انڈین قید میں ہی تھے انڈین گورنمنٹ کا بزرگ ترین حریت رہنماؤں کو زیر حراست رکھنا اور اقوام عالم کا خاموش رہنا انتہائی تکلیف کن ہے بہرحال صحرائی کے بعد یہ قافلہ تحریک آزادی رکے گا نہیں بلکہ اسی طرح چلتا رہے گا انڈیا تھک جائے گا مگر یہ کشمیری نا تھکے تھے نا تھکے گے ان شاءاللہ

Leave a reply