ہندستان بمعنی پاکستان — علی منورؔ

ہندستان آغاز سے ہی تہذیب و تمدن کا مسکن رہا ہے۔جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں وجود میں آئیں، وہیں پہ لوگوں نے بولنا سیکھا۔زبان کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار سیکھا۔ دنیا میں سب سے پہلے زبانوں کے لیے رسم الخط بھی یہیں پہ وجود میں آئے۔ ہندستان لفظ کا اطلاق دراصل جہاں دریائے سندھ کے مشرقی سمت تمام علاقوں پر ہوتا ہے وہیں پہ عربوں نے فارس اور عرب کے مشرقی سمت علاقے کو ہند کا نام دیا۔مختلف سلطنتوں اور بادشاہتوں کے زیر اثر ہند کی سرحدیں بدلتی رہیں، مغل مسلمانوں کے پروقار دور میں ہندستان میں موجودہ افغانستان ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے کچھ حصے شامل رہے تو انگریز کے دور میں موجودہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش, ہندستان کہلائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ ہندو قوم کی وجہ سے یہ سرزمین ہندستان نہیں کہلائی بلکہ ہندستان کی مناسبت سے یہاں کے لوگوں کو ہندو کہا گیا اور بعد از ایک مخصوص مذہب کے پیروکار ہندو کہلائے۔

بہرحال یہ بحث الگ اور مستقل موضوع کی متقاضی ہے۔ عموما تقسیم ہند سے قبل کے ملک کو "ہندستان” جب کہ تقسیم کے بعد والے ملک بھارت کو "ہندوستان” کہا جاتا ہے۔ درحقیقت اس سرزمین کو دریائے سندھ کی مناسبت سے سندھو پکارا گیا مگر جب کم و بیش 600 سال قبل مسیح کے زمانے میں ایرانی شہنشاہ نے سندھو ندی اور آگے کی زمینوں پہ قبضہ کیا تو اس سرزمین کو ہند یا ہندو کہہ کر پکارا، کیونکہ ان کی زبان میں حرف "س” نہیں تھا۔بعض احادیث میں بھی اس سرزمین کا نام "ہند” کے نام سے ہی آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پورے خطے کو دریائے سندھ کی مناسبت سے سکندر اعظم کے زمانے تک ایک ہی نام سے پکارا گیا پھر بعد میں آنے والے فاتحین نے اسے اپنی زبانوں کے لحاظ سے سند، ہند، انڈ کہہ کر پکارا، موجودہ لفظ انڈیا اسی سے نکلا ہے۔ س، ہ اور الف کا استعمال اپنی زبانوں کے حروف کے اعتبار سے کیا۔اور یہاں کے لوگ بھی اسی اعتبار سے سندھو، انڈو یا انڈوس اور ہندو کہلائے۔مغلوں کے دور میں جب ایرانی دربار سے رشتہ داریاں عام ہوئیں تو اس ہند کو فارسی لفظ ستان کے ساتھ ملا کر ملک کا نام ہندستان کر دیا گیا جو صدیوں تک چلتا رہا۔

انگریزوں کے دور میں معاملات کچھ اس طرح خلط ملط ہوئے کہ ہندستان کو انجانے اور غلط فہمیوں کے ساتھ ہندوستان لکھا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سرزمین کو تاریخی کتب میں کبھی بھی ہندوستان نہیں لکھا گیا، بلکہ ہر جگہ اس کا نام ہندستان ہی ہے۔ موجودہ دور میں بہت کم لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس لفظ کی ہئیت کو برقرار اور قائم و دائم رکھا جائے کیونکہ تقسیم کے بعد پاکستانی ہونے کی حیثیت سے بہت سے معاملات اس لفظ کی درستی کے ساتھ جڑے ہیں۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی بھی میدان میں تاریخی اعتبار سے کچھ بھی لکھا یا پڑھا جاتا ہے تو ہندستان لفظ کا اطلاق صرف موجودہ بھارت پر نہیں بلکہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش پر ہوتا ہے۔ جیسے کسی درخت، جانور یا جڑی بوٹیوں کے حوالے سے جب بھی کوئی بات ہندستان کے ساتھ خاص کر کے کہی جاتی تو مراد پورے خطے سے ہوتی ہے نہ کہ صرف موجودہ بھارت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا ذکر چھیڑا جائے تو موہن جوداڑو اور ہڑپہ کے بنا بات آگے نہیں بڑھ سکتی اور یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب سرزمین ہندستان پر وجود میں آئی، جبکہ یہ دونوں تہذیبیں موجودہ پاکستان میں ہیں۔

اسی طرح وہ جگہیں جو موجودہ بھارت میں موجود ہیں مگر ان پر لفظ ہندستان بول دیا جائے تو اطلاق پاکستان ، بنگلہ دیش اور موجودہ بھارت پر بھی ہو گا بلکہ بعض معاملات میں تو نیپال اور افغانستان کو بھی شامل کرنے پڑتا ہے کیونکہ بہت سے ادوار میں یہ دونوں ممالک بھی ہندستان میں شامل رہے۔گویا کسی بھی تاریخی معاملے پر حق صرف پاکستان یا بھارت کا نہیں بلکہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے الگ رہ کر اور دشمنی نبھانے کے باوجود ہر تاریخی چیز پر مشرکہ حق رکھتے ہیں۔

زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو تقسیم ہند کے بعد صرف لوگ اور زمینیں ہی تقسیم نہیں ہوئیں بلکہ صدیوں پرانی تہذیب و تمدن اور ثقافت بھی تقسیم ہوئی ۔جہاں کھجور اور اردو مسلمان ٹھہریں وہیں پہ ناریل اور سنسکرت ہندو بن گئیں۔ غرض یہ بٹوارہ کسی ایک چیز کا نہیں تھا ہر ہر چیز بانٹ لی گئی، راتوں رات معیار تبدیل ہوئے اور دونوں ممالک ایک ساتھ الگ الگ راہوں پر نئی دنیا کے سفر میں نکلے۔

اب دونوں ممالک کو خود طے کرنا تھا کہ وہ دنیا میں اپنا مقام کہاں بناتے ہیں۔مگر افسوس کہ پڑوسی ملک نے اس سفر میں ہمیں کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔بھارت نے اس سفر میں جہاں خود کو آگے پڑھایا وہیں ساتھ ہی ساتھ ہمیں بھی پیچھے دھکیلا۔ کبھی انگریز وائسرائے کے ساتھ مل کر بے ایمانی سے خطے کو اس طرح کاٹا کہ ہماری شہ رگ کشمیر ان کے پنجے میں چلی گئی اور ہم کشمیر کے ساتھ ساتھ اپنے ہی پانی کے لیے ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ کبھی تقسیم کے محض ایک سال بعد ہی ہماری ایک پوری ریاست حیدرآباد دکن کو عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہم سے چھین کر کاٹ ڈالا اور ہم ان سے سامنے ممنا بھی نہ سکے۔ بھارت نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ پاکستان کو ہر ممکن دباتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اور تو اور خود بھارت میں علیحدگی پسند تنظیمیں دراصل ہندو کے تشدد کا ہی تو رد عمل ہیں۔

پاکستان بھر میں بھارت کی طرف سے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوششیش بھی کسی سے ڈھکی چھپیں نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا غم آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں کا درد ہے اور سقوط سرینگر ہماری نیم رضا مندی سے وجود پا رہا ہے، ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت ایک الگ المناک باب ہے۔ ایسے تمام حالات میں ہم پر بحیثیت قوم کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن سے عہدہ برا ہونا ہماری آنے والی نسلوں کا ہم پر قرض ہے۔

اپنے تاریخی ورثے سے ہاتھ ہٹا لینا صدیوں تک کا وہ نقصان ہے جس کی بھرپائی کبھی ممکن نہیں۔ نوجوان طالب علم نسل کبھی کسی جگہ یہ پڑھ کر احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں کہ فلاں چیز یا جاندار کا مسکن انڈیا ہے، کوئی یہ نہ سوچے کہ شاید بھارت کے پاس کوئی ایسی خاص چیز ہے جس سے پاکستانی محروم ہیں۔ایمانداری کا تقاضا ہے کہ یہ بات پاک و ہند اور بنگال کے ہر فرد کے ذہن میں راسخ ہو کہ لفظ "ہندستان” یا "انڈیا” سے مراد بھارت نہیں بلکہ 1947 سے قبل والا برصغیر ہے۔

اقبال کے اشعار "سارے جہاں سے اچھا، ہندستاں ہمارا” اور داغ کے اشعار "ہندستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے” پورے برصغیر کے لیے تھے۔
اپنی اصل سے محبت اور وفا داری کا تقاضا ہے کہ اپنے درد کو سینے میں زندہ رکھتے ہوئے اپنے حق کو سب سے مقدم رکھا جائے۔

Comments are closed.