ہندوتوا،آر ایس ایس کی دہشت گردی اور مودی کا کردار
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
بھارت میں نفرت کی آگ بھڑکانے والے واقعات اب کوئی نئی بات نہیں ہے، حال ہی میں یوگ گرو بابا رام دیو نے ایک بار پھر اپنی زہریلی زبان سے فرقہ واریت کو ہوا دی، جب انہوں نے مقبول شربت ‘روح افزا’ کا نام لیے بغیر اسے ‘شربت جہاد’ قرار دیا۔ ایک وائرل ویڈیو میں وہ یہ الزام لگاتے نظر آئے کہ ایک مشہور شربت کمپنی اپنا منافع مساجد اور مدارس کے لیے استعمال کرتی ہےاور لوگوں کو پتانجلی کا شربت خریدنے کی ترغیب دی جو مبینہ طور پر ‘حب الوطنی’ کے اداروں کو فائدہ دیتا ہے۔ پتانجلی کے فیس بک پیج پر اس ویڈیو کے ساتھ لگائی گئی کیپشن اور بھی شرمناک تھی، جس میں دیگر مشروبات کو ‘ٹوائلٹ کلینر’ اور ‘زہریلا’ کہہ کر لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ یہ صرف ایک شربت کی بات نہیں بلکہ ایک منظم مہم ہے جو مسلم شناخت سے جڑی ہر چیز کو شیطانی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف تمل ناڈو کےپرائیویٹ سکول کی ایک دلت طالبہ کو ماہواری کی وجہ سے امتحان ہال سے باہر زمین پر بٹھا کر پرچہ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مقامی حکام نے تحقیقات کا آغاز تو کیالیکن یہ واقعہ بھارت میں ذات پات اور جنسی تعصب کی گہری جڑوں کو عیاں کرتا ہے۔ یہ دونوں واقعات ہندوتوا کے اس زہریلے ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں جو نریندر مودی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سرپرستی میں بھارت کے سماجی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
جنوب مشرقی بھارت کی ریاستیں جن میں آسام، منی پور، ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ، تریپورہ اور اروناچل پردیش شامل ہیں جو اپنی قبائلی اور مذہبی تنوع کی وجہ سے منفرد ہیں اور ہندوتوا کے جارحانہ عزائم کا شکار ہیں۔ آسام میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) نے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو غیر ملکی قرار دے کر انہیں حراستی کیمپوں میں دھکیلا، جہاں غیر انسانی حالات ہیں۔ منی پور میں نسلی تشدد کو ہوا دی گئی، جہاں عیسائی قبائلیوں کے گاؤں نذر آتش کیے گئے اور انہیں بے گھر کیا گیا۔ مقامی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہندوتوا کے گروہوں نے گرجا گھروں پر حملے کیے اور پادریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ تریپورہ میں بودھ اور عیسائی برادریوں کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہی ہیں۔ یہ سب ہندوتوا کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جو اقلیتوں کو کچل کر ایک ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتی ہے۔
مسلم ریاست جموں وکشمیر جو کئی دہائیوں سے بھارت کی بربریت کا شکار تو پہلے ہی ہے اور اب ہندوتوا کے تحت نئے مظالم سے دوچار ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی نے وادی کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا۔ کشمیریوں سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے، انٹرنیٹ بندشوں نے ان کی آواز دبا دی اور فوجی آپریشنز کے نام پر نوجوانوں کو گرفتار یا جھوٹے مقابلوں میں مارا جا رہا ہے۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی بڑھ رہی ہے اور آر ایس ایس کے کارکن زمینوں کی خریداری کے ذریعے آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا بیانیہ فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جبکہ مقامی مسلمانوں کو مزید دبانا اصل ہدف ہے۔ یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو کشمیری شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سکھ مذہب کے پیروکار جو پنجاب کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہندوتوا کے جبر کا شکار ہیں۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے زخم ابھی تازہ ہیں لیکن بی جے پی نے کسان تحریک کے دوران سکھ کسانوں کو “خالصتانی” اور “دہشت گرد” قرار دے کر ان کے وقار کو مجروح کیا۔ دہلی کی سرحدوں پر احتجاجی کسانوں پر تشدد کیا گیا ان کے خیموں کو جلایا گیا اور انہیں سردی میں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ آر ایس ایس سے وابستہ گروہوں نے گوردواروں کے آس پاس نفرت پھیلائی اور سکھ شناخت کو ہندو ثقافت میں ضم کرنے کی کوشش کی۔ سکھ کارکنوں کو سخت قوانین جیسے UAPA کے تحت جیلوں میں ڈالا جا رہا ہےجو ان کی سیاسی آواز کو کچلنے کی سازش ہے۔ یہ سب ہندوتوا کی اس دہشت گردی کا حصہ ہے جو سکھوں کی تاریخی جدوجہد کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔
عیسائی برادری جو جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں میں نمایاں ہے وہ ہندوتوا کے تشدد سے بری طرح متاثر ہے۔ کرناٹک، کیرالہ، اور تمل ناڈو میں گرجا گھروں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ پادریوں کو مارا پیٹا جاتا ہےاور عیسائیوں کو “مذہبی تبدیلی” کے جھوٹے الزامات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں 2008 کے عیسائی مخالف فسادات جن میں درجنوں گرجا گھر جلائے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے، ہندوتوا کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہیں۔ چھتیس گڑھ میں عیسائی قبائلیوں کے گاؤں تباہ کیے گئے اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں مذہبی تبدیلی کے سخت قوانین لا کر عیسائیوں کی آزادی سلب کر رہی ہیں۔ شمال مشرق میں جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں ہندوتوا کے گماشتےمقامی ثقافت کو ہندو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے نسلی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ سب ایک ایسی دہشت گردی ہے جو عیسائی شناخت کو مٹانے کے لیے جاری ہے۔
دلت جو ہندو ذات پات کے نظام میں سب سے زیادہ محروم طبقہ ہیں جنہیں نیچ کہا جاتا ہے وہ ہندوتوا کے دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ اتر پردیش، بہار، گجرات، اور مہاراشٹر میں دلتوں کو گئو رکشا کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ مردہ جانوروں کی کھال اتارنے جیسے کام کرتے ہیں۔ گجرات کے اونا میں 2016 میں دلت نوجوانوں پر گئو رکشکوں کے حملوں نے قومی احتجاج کو جنم دیا، لیکن انصاف کسی کو نہ ملا۔ دلت خواتین جنسی تشدد کا شکار ہیں اور ان کے گھروں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے جلایا۔ تمل ناڈو کا حالیہ واقعہ جہاں ایک دلت طالبہ کو ماہواری کی وجہ سے امتحان ہال سے باہر بٹھایا گیا اس بات کی گواہی ہے کہ ہندوتوا کی سرپرستی میں ذات پات کا تعصب کس قدر گہرا ہے۔ بی جے پی نے دلتوں کے لیے ریزرویشن اور فلاح و بہبود کے پروگراموں کو کمزور کیا جبکہ آر ایس ایس دلتوں کو ہندو راشٹر کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ان کی تاریخی جدوجہد کے منافی ہے۔ دلت کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے، جیسے کہ بھیما کورے گاؤں کے واقعے میں جہاں ان کے پرامن اجتماع پر حملہ کیا گیا۔
یہ سب ہندوتوا کی وہ دہشت گردی ہے جس کی سرپرستی مودی اور آر ایس ایس کر رہے ہیں۔ بابا رام دیو جیسے ہندوتوا کے پرچارک اس دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، جو مسلم شناخت سے جڑی ہر چیز شہروں کے مسلم نام ہوں یاچاہے وہ شربت ہو یا کاروبار،اسے یہ شیطانی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مودی کی حکومت نے قانونی راستوں، جیسے CAA، وقف ترمیمی بل اور یکساں سول کوڈ کے ذریعے اقلیتوں کے حقوق کو کچلا۔ غیر قانونی طور پر بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسے گروہوں کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ موب لنچنگ، تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے اکثریتی ثقافت مسلط کریں۔ مودی خود اپنی تقاریر میں اقلیتوں کے خلاف طنز و کنایوں کا سہارا لیتے ہیں جیسے کہ انتخابی جلسوں میں انہیں “گھس بیٹھیے” کہنا۔ آر ایس ایس جو ایک صدی سے ہندو راشٹر کے لیے کام کر رہی ہے اس دہشت گردی کی نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس کے کارکن گلی محلے میں نفرت پھیلاتے ہیں جبکہ اس کی قیادت بی جے پی کو سیاسی طاقت دیتی ہے۔
سوشل میڈیا اس دہشت گردی کا ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔کبھی لوجہاد،کبھی لینڈ جہادتو کبھی ریڑھی جہاد اور کورونا کے دوران مسلمانوں کو “کورونا جہاد” کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جس سے ملک بھر میں تشدد بڑھا۔ سکھوں کو “خالصتانی” اور عیسائیوں کو “مذہبی تبدیلی کے ایجنٹ” کہہ کر ان کی جدوجہد کو بدنام کیا جاتا ہے۔ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ظلم کو فروغ دیتی ہیں جیسے کہ اتر پردیش میں مسلم گھروں کو بلڈوزر سے گرایا جانا یا دلتوں کے احتجاج کو کچلنا۔ مودی بظاہر اپنے آپ کو دنیا میں ایک اصلاح پسند اور روشن خیال رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان کی پالیسیاں بھارت کو ایک ایسی ریاست بنا رہی ہیں جہاں جمہوریت اور انسانی حقوق محض خواب ہیں۔
عالمی برادری کی خاموشی بھارت کی اس دہشت گردی کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ بھارت کی معاشی طاقت اور چین کے مقابلے میں اس کی اسٹریٹجک اہمیت کے باعث مغرب دانستہ طور پر چشم پوشی کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ہندوتوا کی یہ دہشت گردی نہ صرف اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ خطے کے امن اور انسانیت کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی توجہ نہ دی تو یہ مظالم ایک ایسی تباہی کو جنم دیں گے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔