مزید دیکھیں

مقبول

میئرکراچی تین روزہ دورے پر چین روانہ

میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب میئر شنگھائی گونگ...

وفاقی وزیرِ خزانہ کی واشنگٹن ڈی سی میں ایس اینڈ پی گلوبل کی ٹیم سے ملاقات

اسلام آباد: وفاقی وزیرِ خزانہ و محصولات، محمد اورنگزیب...

بھارت،شادی سے واپس آنیوالی 4خواتین کے ساتھ 7 افراد کی اجتماعی زیادتی

بھارت میں خواتین غیر محفوظ ہو گئیں، مدھیہ پردیش...

ہولی کے دن بیوروکریسی کے ارمانوں کی ہولی .تحریر: ملک سلمان

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے دوسال کے طویل انتظار کے بعد ہائی پاور بورڈ اور سینٹرل سلیکشن بورڈ کا انعقاد ممکن ہوسکا، بورڈ کا انتظار کرتے درجنوں افسران اگلے گریڈ میں ترقی حاصل کیے بن ہی ریٹائرڈ ہوگئے۔

پی ایم ایس افسران کے ساتھ ناانصافی اور حقوق غضب کرنے کا سلسلہ پہلے سے چلتا آ رہا تھا لیکن ابھی تو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس سروس آف پاکستان سمیت دیگر سی ایس پی افسران پر بھی کلہاڑا چلا دیا گیا۔
ہولی کے دن بیوروکریسی کے ارمانوں کی ہولی کھیلی گئی۔ پرموشن ٹریننگ کورس کرنے اور اے سی آر میں ریکمینڈڈ فار پرموشن کے کمینٹس حاصل کرنے کے باوجود بہت سارے افسران کو پرموٹ نہیں کیا گیا۔ افسران کی ترقی میں رکاوٹ بننے اور پوسٹنگ سے محروم کیے جانے کی وجوہات میں کچھ کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے موجودہ کرتا دھرتا افسران کو ماضی میں Favour نہیں کیا انکو اس گستاخی کا سبق سکھایا جا رہا ہے۔

کرپشن اور پی ٹی آئی کا قریبی ہونے جیسے بیہودہ الزامات لگا کر پرموشن اور پوسٹنگ سے محروم رکھنا، ارباب حکومت کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ ثبوت کے طور پر پی ٹی آئی دور حکومت کی پوسٹنگ نکال کر موازنہ کرلیں، پی ٹی آئی دور میں ”اہم پوزیشن“ انجوائے کرنے اور کرپشن کے ریکارڈ توڑنے والے ناصرف موجودہ حکومت میں پہلے سے بھی اچھی پوسٹنگ انجوائے کر رہے ہیں بلکہ پرموٹ بھی کردیے گئے ہیں۔ اگر عثمان بزدار کا قریبی ساتھی اور پرنسپل سیکرٹری عامر جان پرموٹ ہوسکتا ہے تو پھر باقیوں پر پی ٹی آئی کا ٹیگ کیوں؟
جن افسران کو پرموٹ نہیں کیا گیا اگر وہ اتنے ہی برے ہیں تو انکو اہم سیٹوں پر کیوں لگایا گیا؟ان افسران کو بھی ترقی سے محروم کیا گیا جو حکومتی رٹ بحال کرنے کیلئے مخالف سیاسی جماعت کی "ہٹ لسٹ” پر ہیں۔
جناب وزیراعظم اگر افسران خود ترقی سے محروم ہوں گے تو عام عوام کیلئے خلوص نیت سے کیسے کام کر سکیں گے؟
جناب وزیراعظم آپ کے بارے تو بیوروکریسی کا پختہ یقین رہا ہے کہ آپ بیوروکریسی کے دوست ہیں آپ کے ہوتے ہوئے میرٹ کا بول بالا ہوتا ہے۔ جناب وزیراعظم آپ اپنی زیرنگرانی میرٹ پر انکوائری کروائیں جن افسران پر جیسے بھی الزامات ہیں انصاف کا ترازو اس بات کا متقاضی ہے کہ افسران کو ان الزامات سے اگاہ کرکے صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

ابھی چند ماہ قبل ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے انفارمیشن گروپ کے آفیسر طاہر حسن کی درخواست پر انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر افسر کو گریڈ 20 سے 21 میں ترقی نا دینے کا سنٹرل سلیکشن بورڈ کا فیصلہ کالعدم کر دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں بھی یہی لکھا گیا تھا کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ ایسی انٹیلی جنس رپورٹ کی پرواہ نا کرے جس میں افسر کو محکمانہ سطح پر اپنے دفاع کا موقع نا ملا ہو، عدالت نے تحریری فیصلے میں ایسے کسی الزام پر دفاع کا موقع نا دینے کو بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔جناب وزیراعظم پاکستانی عوام اور بیوروکریسی ہی نہیں عدلیہ بھی آپ کی قابلیت اور دوراندیشی کی قائل ہے اسی لئے معزز جج نے جناب وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا آپ جیسا قابل وزیراعظم بیوروکریسی کو ثبوت کے بغیر انٹیلی جنس رپورٹس کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتا ہے؟

بیوروکریسی کے سنئیر افسران کا یہ مطالبہ ہے کہ وزیراعظم آئی بی کی بجائے آئی ایس آئی کی رپورٹس دیکھ کر فیصلہ کرلیں وہاں جو بھی لکھا ہو گا ہمیں قبول ہے۔ افسران کی اکثریت کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کسی کا اختیارنہیں چلتا اس لیے جن افسران کو فائدہ یا نقصان پہنچانا مقصود تھا ان کو آئی بی کی رپورٹس پر نوازا اور فکس کیا گیا ہے۔انتہائی مصدقہ رپورٹ ہیں کہ چند افسران کی ”ٹارگٹگ“ کیلئے نئی رپورٹس کی بجائے پرانی اور فرمائشی رپورٹس پیش کی گئں۔ انٹیلیجنس بیورو کی رپورٹس کو ملٹری انٹیلیجنس سے کاؤنٹر ویریفائی کروایا جائے تاکہ کسی بھی افیسر کے خلاف فیک اور من مرضی کی رپورٹ کا سہارا لے کر ویکٹیمائز نہ کیا جائے۔ ملٹری انٹیلیجنس کے کام کرنے کا طریقہ کار میرٹ اور شفافیت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں قابل تعریف حد تک سراہا جاتا ہے کیونکہ ملٹری انٹیلیجنس واحد ایجنسی ہے جس کو کسی کے حق یا مخالفت میں انفلینس نہیں کیا جا سکتا۔

جناب وزیراعظم بیوروکریسی کی ایک ہی درخواست ہے کہ آپ خود انکوائری کریں آئی ایس آئی رپورٹ اور ملٹری انٹیلجنس کی کاؤنٹر رپورٹس میں جو بھی آئے انہیں من و عن منظور ہے لہذا آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ ہائی پاوربورڈ اور سینٹرل سلیکشن بورڈ کا رویو اجلاس بلایا جائے۔ جبکہ زمینی خدا بنے سی ایس بی کے سرکاری و غیر سرکاری ممبران سے گزارش ہے کہ انصاف کے قتل عام کے فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ترقی سے محروم افسران کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ ان کا احترام اور رکھ رکھاؤ بھول کر عدالتوں کا رخ کریں۔
آخر پر سب سے ضروری بات پوسٹنگ اور ترقی سے محرومی کا جتنا دکھ بیوروکریسی کو ہوتا ہے اتنا ہے رینکر اور دوسرے چھوٹے ملازمین کو بھی ہوتا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اپنے ماتحت چھوٹے ملازمین کے ساتھ انصاف کریں تاکہ کل کو آپ کے ساتھ بھی انصاف ہو، وہ کہتے ہیں نہ کر بھلا سو ہو بھلا۔