پاکستان نے رافیل کیسے گرایا، معرکہ عالمی عسکری حلقوں میں بھرپور توجہ کا مرکز

1 ہفتہ قبل
تحریر کَردَہ
rafel

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپ میں پاکستانی جنگی طیاروں نے بھارتی رافیل طیاروں کو مار گرایا، جس کے بعد یہ معرکہ عالمی عسکری حلقوں میں بھرپور توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ دنیا کی بڑی افواج، بشمول امریکہ اور یورپ، اس فضائی جھڑپ کا گہرائی سے تجزیہ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل میں ہونے والے تنازعات میں جدید ہتھیاروں اور فضائی حکمت عملیوں کے مؤثر استعمال کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ بدھ کے روز پاکستانی فضائیہ کے چینی ساختہ J-10 جنگی طیاروں نے کم از کم دو بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے جدید میزائل استعمال کیے گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی براہِ راست فضائی جھڑپ نایاب موقع فراہم کرتی ہے، جس سے نہ صرف طیاروں اور میزائلوں کی صلاحیتوں بلکہ پائلٹس کی تربیت اور فضائی حربوں کا بھی عملی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اس جھڑپ نے عالمی سطح پر جدید عسکری ٹیکنالوجیز کی افادیت اور کارکردگی کو اجاگر کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس جھڑپ میں چین کے PL-15 اور یورپی MBDA کے میٹیور میزائلوں کی کارکردگی کے موازنے پر خاصی بحث جاری ہے،بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سینئر عسکری ماہر ڈگلس بیری نے کہا، "چین، امریکہ اور یورپ کی فضائی افواج اس جھڑپ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا اور زمینی حقائق کا باریک بینی سے مطالعہ کریں گی تاکہ اپنی فضائی حکمت عملیوں کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔”انہوں نے مزید کہا کہ اگر واقعی PL-15 اور میٹیور میزائل آمنے سامنے آئے ہیں، تو یہ مشرقی اور مغربی ٹیکنالوجی کے درمیان ایک غیر معمولی تصادم تھا جو مستقبل میں عسکری حکمت عملیوں کو نیا رخ دے سکتا ہے۔

امریکی دفاعی صنعت سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ PL-15 میزائل امریکی فوج کے لیے خاص تشویش کا باعث ہے اور اس کی کارکردگی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ جدید چینی میزائل امریکی فضائیہ کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں، اور ان کی اثرانداز ہونے کی صلاحیت پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔

دوسری جانب فرانس کی رافیل بنانے والی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن نے اس واقعے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے، جبکہ میزائل ساز یورپی گروپ MBDA سے بھی فوری ردعمل نہیں آیا۔ اس جھڑپ کے بعد عالمی سطح پر اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ ان کمپنیوں کی طرف سے آئندہ کسی بیان کا اجراء ہو سکتا ہے، جو اس تنازعے کی نوعیت اور جدید عسکری ٹیکنالوجیز کی افادیت کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرے گا۔

یہ فضائی جھڑپ ایک عالمی سطح پر عسکری تجزیہ کا موضوع بن چکی ہے۔ جنگی ماہرین، فوجی حکام اور دفاعی تجزیہ نگار اس واقعے کے بعد مختلف سطحوں پر تجزیے اور تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ آئندہ جنگوں میں جدید ہتھیاروں اور فضائی حکمت عملیوں کی بہتر تفہیم حاصل کی جا سکے۔اس فضائی جھڑپ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ عالمی سطح پر فضائی جنگ کی نوعیت میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے، اور اس میں جدید ٹیکنالوجی کا کردار اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ممتاز حیدر

ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں
Follow @MumtaazAwan

Latest from بین الاقوامی