حکمرانوں کے نظریہ تبدیلی کا بھی یوٹرن ، تحریر: نوید شیخ

0
20

جس حساب سے حکومت کے صفوں میں تھرتھرلی مچی ہوئی ہے۔ اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ یوم حساب قریب ہے ۔ جو کبھی عمران خان دوسروں سے حساب مانگا کرتے تھے ۔ اب زبان زدعام ہے اور اس حکومت سے ساڑھے تین سالوں کا حساب مانگا جانے لگا ہے ۔ پھر ایک جانب جہاں پی ڈی ایم نے ملک بھر میں جلسے اور جلوس نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ تو پی ٹی آئی نے بھی جلسے کرنا شروع کر دیے ہیں ۔ آج مولانا نے کراچی میں تو پی ٹی آئی نے کرک میں کھڑاک کیے ہیں ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت خود جلسے کر رہی ہے۔ اسے تو اپنے معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ سونے ہر سہاگا وفاقی وزراء نے خاص طور پر اپوزیشن اور میڈیا کے خلاف محاذ گرم کرنا شروع کردیا ہے ۔ اب جو کل سے لے کر آج تک وفاقی وزراء کے بیانات میری نظر سے گزری ہیں ۔ اس کے بعد محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ عوام کے بعد حکومت نے بھی گھبرانا شروع کر دیا ہے ۔ جیسے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ساری اپوزیشن تھکے ہوئے پہلوانوں پر مشتمل ہے، ان کو طاقت کی گولیاں چاہئیں، یہ کھڑے ہوتے ہیں پھر گر جاتے ہیں۔ تو اسد عمر نے میڈیا پر سخت تنقید کی اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی کہ میڈیا والے پی ڈی ایم والوں کے سہولت کار ہیں۔ پھر یہ بھی کہا کہ ان کو میرا پیغام ہے۔ لانگ مارچ کا سوچنا بھی نہ ۔ یہاں آو گے تو بڑی کٹ پڑے گی۔

پھر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ لوٹا ہوا مال بچانے کےلئے پھر سب ایک ہورہے ہیں۔ نوازشریف تابوت میں تو آسکتے ہیں۔ زندہ آئے تو جیل جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی مدت پوری کریں گے۔ تومراد سعید کا کہنا ہے کہ اپوزیشن والے موسمی بیماری ہیں، یہ سردیوں میں نکل آتے ہیں۔ پھر پرانے کھلاڑی شیخ رشید اور نئے نئے وزیر فرخ حبیب نے بھی خوب شگوفے چھوڑے ۔ ویسے یہ گنے چنے وزیر ہیں ۔ پرباقی سب اس بے یقینی میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ ملک میں سب اچھا نہیں اور کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ جو اب بھی یہی کہے جا رہے ہیں کہ عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ حالانکہ اب مسئلہ یہ نہیں کہ پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کن حالات میں پورے کرنے ہیں اور پانچ سال بعد عوام کے پاس کیا منہ لے کر جانا ہے۔ یہ وزیروں کے بیانات اور اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینا ایک جانب پر اسی افراتفری میں نیب کی طرف سے ایک بار پھر شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی اطلاعات سامنے آگئی ہیں ۔ یاد رکھیں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں اور لوگ اس کو حکومت کی حالیہ ایوان میں شکست سے جوڑ رہے ہیں ۔ اس پر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ شہبازشریف کا نام ایک نہیں، دو نہیں، تین چار دفعہ ای سی ایل میں ڈالیں ۔ عمران خان بس آٹا، چینی،بجلی،گیس،دوائی مافیا کو آرڈیننس لا کراین آر اودیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ حکومت اب جان چکی ہے کہ ان کی عوامی مقبولیت اس حد تک گر چکی ہے کہ اگلے انتخابات میں عوام انہیں مسترد کر دیں گے۔ اس لیے حکومت اپنے لیے سدباب کے طور پر نیب کو رول بیک کرنے کا قانون لا رہی ہے۔ پھر پرویز الٰہی بھی دل میں موجود شکوے زبان پرلے آئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم وفاق کا ساتھ نبھا رہے ہیں ۔ یہ ہمارا ساتھ نہیں نبھا رہے ۔ اب ان بیانات اور سیاسی منظر نامے کے بعد حکومت کا گھبرانا تو بنتا ہے ۔ یوں عمران خان حکومت کو فی الوقت ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا اسے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ بس چھوٹ گئی ہے ۔ اب پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے تباہی ہی تباہی دیکھائی دیتی ہے ۔ کیونکہ چینی کا بحران ختم نہیں ہوا تھا کہ آٹے کا بحران سر اٹھانے لگا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ پیر سے اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کے تھیلے کی شدید قلت کا خدشہ ہے۔ یہ پہلی بار نہیں، ہر سال کوئی نہ کوئی وجہ بناکر کبھی آٹے، چینی تو کبھی ٹماٹر، پیاز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ جس کا سارا فائدہ منافع خور اور ذخیر ہ اندوز اٹھاتے ہیں اور عام آدمی خسارے میں ہی رہتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں حکومتی رِٹ کہیں نظر نہیں آتی البتہ مہنگائی کا نوٹس لینے کے اعلانات بارہا میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

۔ یوں بگڑتی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مزید بے قدری اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مثبت نتیجہ آنے میں تاخیر کی وجہ سے صرف دباؤ ہی نہیں بڑھ گیا ہے۔ لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے ۔ اب لوگ اس حکومت کی تبدیلی کی بات یوں کررہے ہیں جیسے کپڑے بدلتے ہوں ۔ کیونکہ عوام اب تھک چکے ہیں اور امیدیں دم توڑگئی ہیں۔ اس لیے اب ہر دوسرا بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت دلدل میں پھنس چکی ہے اور ساحل تک آنے سے پہلے ہی ڈوبنے کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔ کئی لوگ تو قیاس کر رہے ہیں کہ گزشتہ ماہ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد پیش آنے والے واقعات اور حالات کے نتیجے میں عمران خان اپنی بڑی حمایت کھو چکے ہیں اور اب یہ چند ماہ کی کہانی رہ گئی ہے کہ حکومت شاید چلی جائے۔ اب چاہے یہ قیاس آرائیاں درست ہیں یا نہیں لیکن عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے درپیش چیلنجز انتہائی سنگین ہیں۔ حالات پر نظر ڈالیں تو بہت سی باتیں اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ گراونڈ پر سب اچھا نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں، جب اپنے بھی آنکھیں دکھانے لگیں تو سمجھو حکومت کی گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ معاملات کسی اور طرف جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں ایک مقبول حکومت کے ساتھ کبھی ایسے معاملات نہیں ہوتے۔عوامی سطح پر جس حکومت کو مقبولیت حاصل ہو، اُسے کوئی آنکھیں نہیں دکھاتا، خود اسٹیبلشمنٹ بھی اُس کے بارے میں محتاط رویہ رکھتی ہے۔عمران خان کو شاید علم نہیں کہ خود اُن کے ارکانِ اسمبلی اس وقت عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انہیں درحقیقت عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں زچ آئے ہوئے عوام کو لمبی لمبی تقریروں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کو معاشی شعبے میں کوئی ریلیف نہ دے سکے۔ یہ ناکامی موجودہ حکومت ایسی گلے پڑی ہے کہ اب طوق بن گئی ہے۔ تقریباً ساڑھے تین برسوں میں کوئی ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں ہوا،جس سے عوام کوئی سُکھ کا سانس لے سکے۔ تاہم اسلام آباد کے حالات میں ایک واضح ہلچل نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کا اس طرح متحرک ہونا اور ایک دوسرے سے مل جانا بھی غیر معمولی بات ہے۔کل تک ایک دوسرے کی شکلیں نہیں دیکھنا چاہتے تھے،اب ساتھ بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف وہ حکومت جس کے وزیراعظم کہتے ہیں وہ اپوزیشن سے ہاتھ تو ملانا نہیں چاہتے اب سپیکر اور وزراء کے ذریعے اُسی اپوزیشن سے تعاون کی بھیک مانگ رہی ہے۔ کوئی بعید نہیں ان حالات میں اپوزیشن یہ شرط بھی رکھ دے کہ وزیراعظم آ کر اُن سے مذاکرات کریں۔ تب وہ قانون سازی میں تعاون کریں گے،ایسا ہوا تو وزیراعظم کے لئے اپوزیشن سے ہاتھ ملانا مجبوری بن جائے گی۔

۔ پھر عمران خان نے جس طرح2018ء میں انتخابات جیتنے کے لئے جو الیکٹیبلز کے پیوند لگائے تھے اُس کے نتائج وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ بلکہ لوگ تو قبل از وقت ہی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر فرض کریں پی ٹی آئی پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے یا حکومت وقت سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔ تو کیا تحریک انصاف میں یہ سب لوگ رہیں گے۔ جو اب ہیں ۔ کیا اس جماعت کا شیرازہ بکھرنے سے بچ جائے گا۔ کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ثابت کیا ہے۔ مشکل حالات میں بھی لوگ اُن کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے تو اپنے دور میں ارکانِ اسمبلی آنکھیں دکھاتے اور فارورڈ بلاک بنانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ اب تو حالات بھی ایسے ہیں کہ خود تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی نجی دوستوں کی محفلوں میں کہتے ہیں عوام کا سامنا نہیں کر سکتے۔ میری نظر میں وقت تیزی سے گزر چکا اور گزر رہا ہے ۔ اب بھی اگر اہل اقتدار اسی طرح مدح سرائی کے نشے میں لت ہو کر تقریروں سے عوام کا پیٹ بھرتے رہے اور عملی طور پر کام نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ان کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہو گا۔ فی الحال حکومتی کشتی کے سوار اپنا سامان اتار رہے ہیں اور نئے مسافر تیاری پکڑ رہے ہیں۔۔ افسوس کہ کچھ کر کے کسی انجام سے دوچار ہونا الگ بات تھی۔ موجودہ حکمران تو محض رنگ بازی، شعبدہ بازی، جھوٹ، منافقت، بدعنوانی، ہوس اقتدار اور محسن کشی کی دلدل میں ایسے اترے کہ عبرت بن گئے۔ اب حقیقت یہی ہے کہ حکمرانوں ہی نہیں ان کے نظریہ تبدیلی کا بھی یوٹرن ہے جسے کوئی روک نہیں پائے گا۔ میرے خیال سے ملک مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ملک کو موجودہ نازک بحرانوں سے نکالنے کے لئے آزاد انہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن کی ضرورت ہے

Leave a reply