ہم ہوا میں تو فیصلہ نہیں دینگے، سب کو سن کر فیصلہ دینگے،چیف جسٹس، سماعت ملتوی

0
65

سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت شروع ہو گئی ہے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل لارجر بینچ کا حصہ ہیں

عدم اعتماد کا معاملہ،سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے درخواست پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک کے توسط سے دائر کی ،سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی

بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ آپ کی اجازت سے میں گزشتہ روز پیش ہوا تھا آج میں پی ٹی آئی کی طرف سے پیش ہورہا ہوں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو بعد میں سن لیں گے ،بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ میں دوباتیں کرنا چاہتا ہوں اسکی اجازت چاہیے، صدارتی ریفرنس میں 31مارچ کا جو حکم جاری ہوا وہ اہم ہے،عدالت کے 21 مارچ کے حکم کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں،21 مارچ کو سپریم کورٹ بار کی درخواست پر 2 رکنی بنچ نے حکمنامہ جاری کیا تھا،جو کچھ بھی ہوا سب ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں ،الیکشن کیلئے تیار ہیں، سارا مسئلہ جلدی الیکشن کا تھا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی بیان ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں ،ہم آج کوئی مناسب حکم جاری کریں گے،ایڈووکیٹ نعیم بخاری اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے،

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس وقت ساری جماعتوں کے وکلا یہاں موجود ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں سب کو سنیں گے، آپ ہمیں کیس سمجھائیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت اہم نوعیت کے معاملے پر فل کورٹ بنائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو بینچ میں موجود کسی جج پر اعتراض ہے تو بتائیں،اگر کسی کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہم یہاں سے چلے جائیں گے،قومی اسمبلی میں جو کل ہوا ہے اُسکا آئینی جائزہ لینا ہوگا۔عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے 10 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا،فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانا سیاسی جماعتوں کا حق ہے،عدم اعتماد جمع کرنے کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں ،اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی وزیراعظم والا طریقہ کار لاگو ہوتا ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپوزیشن نے 8 مارچ کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دی جب ریکوزیشن قوائد کے مطابق جمع ہو تو 14دن میں اجلاس بلانے کا پابند ہے اسپیکر نے تیرہویں دن اجلاس بلایا ،20 تاریخ تک بلانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ریکوزیشن کے بعد ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ اجلاس 14 دنوں میں بلایا جانا ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کے بعد اسپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، 28 مارچ کو ایم این اے کی فوتگی کی وجہ سے دعا کے بعد اجلاس ملتوی کیا گیا،جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کیس ہم نہیں سن رہے،آپ کا کیس وہ نہیں جو آپ بول رہے ہیں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانے کی وجوہات بھی جاری کی تھیں، وجوہات درست تھیں یا نہیں اس پر آپ موقف دے سکتے ہیں،کیا آرڈر آف دی ڈے تب جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو ؟کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے؟ کیا 10 مارچ آرڈر آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں؟کیا 10 مارچ آرڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے،50 ارکان کہتے ہیں تحریک پیش ہو اور 50 کہتے ہیں نہ ہوتو کیا تحریک پیش ہوگی؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر اسپیکر عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوگا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسپیکر اسمبلی نے قرارداد کی اجازت دے کر 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کیا تھا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں، چھوڑیں یہ سب، اور مقدمے کے حقائق کی طرف آئیں،دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی ضابطہ کارروائی میں یہ درج ہے کہ سپیکر کوئی بھی تحریک مسترد کر سکتا ہے اب آپ یہ بتائیں کہ اسپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے، رولز کے مطابق تین دن بحث ہونا تھی ،تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے. فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا؟ فاروق نائیک نے کہا کہ ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے؟

پیپلزپارٹی وکیل فاروق ایچ نائیک نے اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کر دی، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اجلاس شروع ہوا تو فواد چودھری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سوال کیا فواد چودھری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ جاری کر دی،عدالت نے استفسار کیاکہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان ؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے؟ اگر اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا، 27مارچ کو عمران خان نے جلسہ میں غیر ملکی خط لہرایا عمران خان نے الزام لگایا کہ اپوزیشن بیرونی لوگوں کی سازش کا حصہ ہے،31مارچ کو نیشنل سیکیورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا،اسپیکر نے اختیارات سے تجاوز کر کے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو حقائق سے آگاہ کریں

وکیل نے کہا کہ گزشتہ روز فواد چودھری نے بیرون ملک سے موصول ہونے والے خط پر تقریر کی 31مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہا گیا اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی کوشش بھی کی عمران خان نے 27 مارچ کو عوامی جلسے میں ایک کی سازش سے آگاہ کیا تین اپریل کو اجلاس اس لئے بلایا گیا کہ اس دن بحث ہوگی، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رولز میں وہ کونسی پرویژن ہے جس کے تحت اسپیکر بحث کی اجازت دیتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رول 28 میں ہے کہ اسپیکر رولنگ دے سکتا ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر کوئی سوال پیدا ہوجاتا ہے تو اس پر بحث ایوان میں کرانی لازم تھی جو رولنگ دی گئی تھی وہ غیر قانونی ہے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا ایسی کوئی رولنگ جو اسپیکر کا اختیار ہے وہ اس پر رولنگ دے سکتا ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رولنگ دینے وقت اسپیکر موجود نہیں تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رولنگ غیر قانونی ہے،ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے،فاروق ایچ نائک نے کہا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے؟ رول 28 کے تحت ا سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے،اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے، کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات کی منتقلی ایسے ہی ہے جیسے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات ہوں،جس رولنگ کو آپ چیلنج کررہے ہیں آپ کے مطابق وہ ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات میں نہیں رول 28 کے تحت ا سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے، جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایوان میں جب 198 ووٹرز موجود تھے تو پھر کیا ووٹنگ ہونا چاہیے تھی،ایوان میں فیصلہ تو ووٹنگ کے تحت ہونا ہے، فاروق ایچ نائک نے کہا کہ ممبر کیریکٹر پر ایوان میں بات نہیں ہوتی صرف ووٹنگ ہوتی ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے،قائمقام سپیکر کیلئے نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے،جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان کو غدار قرار دیدیا،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کے معاملہ پر ووٹنگ ہونا تھی،فاروق ایچ نائک نے کہا کہ 3اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھا،دوسرا کوئی ایجنڈا کارروائی کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، ایوان میں ووٹنگ کیلئے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ 198ارکان میں کیا پی ٹی آئی کے ارکان بھی شامل تھے؟ فاروق نائک نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے ووٹ تو نہیں ڈالا،اپوزیشن کے 175 ارکان موجود تھے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 اکثریت کی بات کرتا ہے، کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے؟ فاروق ایچ نائک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد 3 منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانونی نکتے پر بات کریں، یہ جذباتی گفتگو ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں؟ اسپیکر کیطرف سے ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی؟ اگر ہم سمجھیں کہ دی گئی رولنگ غیر قانونی ہے تو وہ کیوں ؟ اس بارے میں بتائیں .آپ کہتے ہیں کہ ایک بار موشن ایوان میں پیش ہوجائے تو اسکا فیصلہ جو بھی ہو، ایوان میں پیش ہونے کے بعد موشن کے قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا نہیں جاسکتا، آپ کا مطلب ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا یہ موقف یہی ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اسکی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہو سکتا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا پروسیجرل غلطی آرٹیکل 69 میں کور نہیں ہوگی،پارلیمان کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے،چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ وہ کون سی اسٹیج ہے جہاں اسپیکر قرارداد کی ویلیڈیٹی کو دیکھ سکتا ہے ؟ فاروق ایچ نائک نے کہا کہ صرف آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی پر۔ جس پر عدالت نے کہا کہ یعنی آپکے مطابق اسپیکر کے پاس کوئی گراؤنڈ موجود نہیں تھا کہ وہ قرارداد کو ختم کرتے اور انکا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے میں درخواست گزاروں سے زیادہ جلدی میں ہے ہم اس فیصلے میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے-

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی اور کالعدم بھی، اپوزیشن کو آج ہی فیصلے کا انتظار مگر ان کی وکیل نے عدالتی سوالات پر جواب کیلئے کل تک کی مہلت مانگ لی ،فاروق نائیک نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج ہو سکتی ہے، عدالت نے کہا کہ اپنے اس نکتے پر عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیں،فاروق نائک نے کہا کہ کل تک کا وقت دیں تو مطمئن کر سکتا ہوں،عدالت نے کہا کہ آپ وقت مانگ رہے ہیں ہم تو آپ سے زیادہ کام کر رہے ہیں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے،کوئی عدالتی فیصلہ بتائیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو، آرٹیکل 69 پر عدالتی دائرہ اختیار کیا ہے،غیر قانونی غیر آئینی اقدام اور بد نیتی سے متعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگررولنگ کو غیر آئینی قرار نہ دیا گیا تو یہ مستقبل میں ہمارے لیے مسائل پیدا کریگا رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا،تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا،محب وطن ہونے اور مذہب کارڈز سے ابھی تک جمہوریت باہر نہیں نکل سکی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منحرف ارکان کے حوالے سے بھی اپنا موقف دونگا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ کو کل تک ملتوی کر دیتے ہیں ،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کو عدالت آج مکمل کرے اس پر ملکی اور غیرملکی آنکھیں لگی ہوئی ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ رضا ربانی آپ اور مخدوم علی خان کتنا وقت دلائل کے لیے لینگے؟ بابر اعوان نے کہا کہ ممکن ہوسکے تو کل تک سماعت ملتوی کریں آج ہی سماعت مکمل کرکے آج فیصلہ دیں ایسا ممکن نہیں یہ بڑا حساس معاملہ ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس پر سماعت کل 12بجے تک ملتوی کر دی گئی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس فیصلے کے اثرات مستقبل پر پڑیں گے،فاروق نائک نے کہا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کو توڑ چکے ہیں اور عمران خان کو وزیر اعظم رکھا گیا ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اگر اپنے دلائل تحریری کے طور پر دیتے تو 2 گھنٹے میں سارے وکلا کو سن لیتے،ہم ہوا میں تو فیصلہ نہیں دینگے، سب کو سن کر فیصلہ دینگے،

قبل ازیں اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ عدالت کے سامنے رکھیں گے، جو بھی عدالتی فیصلہ ہوگا اس پر عملدرآمد کیا جائے گا

قبل ازیں صدر پاکستان مسلم لیگ ن شہباز شریف سپریم کورٹ پہنچ گئے ،ن لیگی ترجمان مریم اورنگزیب بھی شہباز شریف کے ہمراہ تھیں، پی ٹی آئی اور متحدہ اپوزیشن کے رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا ہے، عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے وکلاء کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا تھا صدر مملکت، سیکریٹری دفاع و داخلہ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کیا گیا جبکہ عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سے ازخود نوٹس میں معاونت طلب کر رکھی ہے

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل اور دوسرے اقدامات اب عدالت عظمی کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے تاہم اگر گذشتہ روز کے اقدامات برقرار رہنے کی صورت میں 1973ء کے آئین کے تحت بنے والی یہ آٹھویں اسمبلی ہو گی جو اپنے مدت پوری کئے بغیر تحلیل ہوئی، جب 1973ء کا آئین بنا اور اس پر عمل شروع ہوا تو اس وقت کام کرنے والی اسمبلی کو قبل ازوقت انتخابات کے لئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تحلیل کیا تھا، اس کی تحلیل پر کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوا، 1977ء کے انتخابات ہوئے اور بننے والی اسمبلی کو ما رشل لا لگنے کے بعد توڑ دیا گیا ،

1985 کے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی کو صدر نے آٹھویں ترمیم کے تحت توڑ دیا ۔ 1988ء میں بننے والی اسمبلی بھی اس ترمیم کا شکار ہوئی، 1990اور 1993 میں بننے والی اسمبلیاں بھی مدت پوری نہیں کر سکیں 1997 میں بننے والی اسمبلی بھی مارشل لاء کی نذر ہوئی، 2002ء سے2018ء تک بننے والی تین اسمبلیوں نے مدت پوری کی جبکہ 2018ء میں بننے والی موجودہ اسمبلی اس وقت تحلیل کی گئی ہے تاہم معاملہ عدالت عظمی میں ہے جہاں سے جو بھی فیصلہ ہو گا اس کے مطابق اس کی حتمی پوزیشن سامنے آئے گی

مصطفیٰ کمال نے اپوزیشن کو آئینہ دکھا دیا

پنجاب اسمبلی توڑنے کا بھی قوی امکان،عمران خان نے اہم شخصیت کو طلب کرلیا

ہارے ہوئے عمران خان کی الوداعی تقریر قوم نے کل سن لی، اہم شخصیت بول پڑی

تحریک عدم اعتماد پر کارروائی روکی جائے،سپریم کورٹ میں درخواست دائر

عمران خان رونے نہیں لگا ، بعض خوشی کے آنسو ہوتے ہیں،شیخ رشید

وزیراعظم نے استعفے پر غور شروع کر دیا

پنجاب اسمبلی،صوبائی وزیر نے صحافی کا گلہ دبا دیا،صحافیوں کا احتجاج

شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست

دھمکی دینے والے کو بھرپور جوابی ردعمل دینے کا فیصلہ

دھمکی آمیز خط۔ امریکی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی

دھمکی آمیز خط کا معاملہ وائیٹ ہاؤس پہنچ گیا، امریکی رد عمل بھی آ گیا

دھمکی آمیز خط 7 مارچ کوملا،21 مارچ کو گرمجوشی سے استقبال.قوم کو بیوقوف بنانیکی چال

3 سال میں 57 لاکھ لوگوں کو روز گار فراہم کیا،اسد عمر کا دعویٰ

عمران نیازی کی فسطائی سوچ،گزشتہ روز سویلین مارشل لا نافذ کیا،شہباز

Leave a reply