ہم غزنوی کے بیٹے ہیں پرتھوی کے نہیں
#تحریر عشاء نعیم
چاچا رحمت ! سنیا ای کچھ
نئیں، کی ہویا؟ چاچا نے پوچھا
چاچا اسلام آباد میں حکومت اپنے خرچے پہ مندر بنا رہی ہے ۔
کیا کہہ رہا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی (چاچا رحمت اللہ جو نوے سال کا بوڑھا تھا کمر پہ ہاتھ اور جھکا ہوا تھا ایک دم اوپر ہوا )
شاید تو ہندوستان کی بات کر رہا ہے وہاں حکومت مندر بنا رہی ہے ؟
نئیں نئیں چاچا !
پاکستان کی حکومت مندر بنا رہی ہے ۔( کریمو نے پھر بات دہرائی)
چاچا نے جھریوں سے بند ہوتی آنکھوں کو کھولا اور پھر پوچھا مندر گرا رہی ہے حکومت اسلام آباد میں؟
کریمو اس بار بلند آواز سے بولا
چاچا ! پاکستان کی حکومت اسلام آباد میں اپنے خرچے پہ مندر بنارہی ہے ۔
اب جو آنکھیں جھریوں سے چنی چنی لگتی تھیں جیسے پھٹ کر باہر آ گئیں
جھکی کمر ایک دم جیسے سیدھی ہو گئی ۔
چاچا کھڑا ہو گیا
کہتا
کیا کہتا ہے کریمو ؟
یہ کیسے ممکن ہے ؟
کیا بھارت نے پھر اللہ نہ کرے قبضہ کر لیا ؟
مجھے کیوں کچھ پتہ نہیں چلا ؟
میں اتنا تو بے خبر نہیں ابھی ۔
کریمو نے دیکھا چاچا رحمت کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے اور جسم جیسے کانپنے لگا
اس نے چاچا رحمت کو پکڑ کر بٹھایا، پانی پلایا
اور کہا حوصلہ کر چاچا ایسا کچھ نہیں ہوا
پاکستان پہ اللہ نہ کرے کسی نے قبضہ نہیں کیا ۔
فیر یہ مندر کیوں بنا رہے ؟
چاچا نے پوچھا
کریمو نے جواب دیا
چاچا !بس باہر سے جو مطالبہ ہوتا ہے حکومت وہی کرتی ہے ۔
ہماری کون سنتا ہے۔
اب چاچا رحمت ذارو قطار رونے لگا اور کہنے لگا
کریمو!اگر یہاں بھی ہم نے خود مندر بنانے تھے تو پھر میری تین جوان بیٹیاں، دو بیٹے ۔ان کے 4 بچے ،میری بیوی سب میں نے کیوں کٹوایا؟
صرف ایک پتر بچا تھا جسے میں لے کر پاکستان پہنچا
سارے راستے میں اپنے پیاروں کے صدقے دیتا آیا ۔
رشتہ دار بھی گاجر مولی کی طرح کاٹے انھوں نے ۔
اور وہ ۔۔۔۔۔
اس کے بعد چاچا سے بات نہیں کی جارہی تھی ۔
کریمو نے کندھے پہ ہاتھ رکھا حوصلہ دیا اور پوچھا
وہ کیا چاچا ؟
چاچا بڑی دیر بعد سنبھلا اور بولا
وہ میری بہن، جسے ہندو پکڑ کر لے گئے ۔۔۔ ۔
جس کا آج تک نہیں پتہ کہاں گئی ۔۔۔زندہ ہے یا مر گئی ۔۔
چاچا کی حالت بری ہو گئی تو کریمو نے کہا
چاچا آرام کر ،پھر بات کریں گے ۔امید ہے مندر نہیں بنے گا ۔لوگ کافی بول رہے ہیں تو پریشان نہ ہو ۔۔۔
لیکن چاچا رحمت کا تو دل ہی پھٹ گیا تھا ۔۔
وہ ماضی میں کھو گیا اور 1947 میں پہنچ گیا
جب وہ اور محلے دار گھر سے راتوں رات مارے خوف کے قافلہ بنا کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
اس کی آنکھوں کے سامنے مناظر تھے ۔
جب قافلہ چل رہا تھا تو ست سری اکال کے نعروں کے ساتھ برچھے ، نیزے بھالے نمودار ہوئے اور پھر نہتے مسلمان کٹنے لگے ،بچے نیزوں میں پروئے جانے لگے، ماوں کی چیخوں سے آسمان بھی کانپنے لگا ،اور ان چیختی ماوں اور جوان لڑکیوں کو بھی کاٹا جانے لگا ،کچھ کی عزت آنکھوں کے سامنے لٹی جن میں چاچا کی اپنی بہن بھی شامل تھی اور پھر اسے اور کچھ اور کو مال مفت کی طرح ساتھ لے گئے اور ماں باپ صدمے سے چور روتے پیٹتے پاکستان کی طرف چل پڑے، کچھ غم سے مر گئے ۔اور چاچا کے بھائی اور ماں باپ اگلے حملے میں کٹ گئے۔
اور ان کے دوست نے بھی ایک دوست متین الرحمن کا واقعہ سنایا کیسے پاکستان پہنچا۔
وہ بتاتا ہے وہ قافلے کی صورت میں پاکستان چل پڑے کہ
کسی حادثے یا واقعے کے سبب بھگڈر مچی اور بدقسمتی سے قافلہ 2حصو ں میں بٹ گیا۔ ایک میں والدین، تیسرے چھوٹے بھائی اور بہن اور دوسرے حصے میں متین الرحمن اور ان کا بھائی معین تھے، جنہوں نے قریبی گاؤں کی جانب سفر شروع کردیا۔ اب دوسرے قافلے کی کوئی ترتیب اور حفاظتی اقدامات نہ تھے، مردوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ نہتے بھی تھے۔ رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی۔ غیر ہموار سا میدانی راستہ، جگہ جگہ جھاڑیاں کٹی ہوئی تھی اور کٹے ہوئے سرکنڈوں کے گٹھے تھے۔ سرکنڈوں کے درمیان سے گزرنا دشوارتھا کیونکہ ہاتھوں اور چہروں پر خراشیں آرہی تھیں۔ اچانک ایک موٹر کی آواز سنی جس سے قافلے میں بھگدڑ مچ گئی لوگ افراتفری میں جھاڑیوں کے اندر کود کر چھپنے لگے۔ سلطا ن چاچا(محلے دار) نے لڑکوں (متین، معین اور چاچا کا بیٹا امین اللہ) کو زمین پر لٹا کر سر کنڈوں کے گٹھے بگھیر دیے۔ جب موٹر کی آواز غائب ہوئی، لڑکوں کو نکالا گیا تو سرکنڈوں کی چھال کی پھانسوں سے جسم کے کھلے حصوں پر خراشیں آچکی تھیں اور کہیں کہیں سے خون رس رہا تھا۔ سحرکے قریب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے متین الرحمن لکھتے ہیں کہ اب ہمارا سفر نہر کے کنارے کسی سڑک پر ہورہا تھا۔ کہ اچانک پیچھے سے ایک دلدوز چیخ ابھری۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو چچی (محلے دا ر کی بیوی)5,4 سکھوں کے نرغے میں تھی۔ چچی نے نہر میں چھلانگ لگادی تھی اور ایک سکھ بالوں سے پکڑ کر باہر کھینچ رہا تھا۔ چچا تیزی سے واپس بھاگے اور ایک سکھ کا گنڈاسہ چھین کر بالوں سے کھینچنے والے سکھ پر حملہ کر دیا۔ باقی سکھوں نے چچا پر حملہ کر دیا۔ قافلے کے کچھ لوگ چچا کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور دو بدو لڑائی ہوئی، قافلے میں بھگدڑ کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ صبح کا اجالا پھیلنے پر قافلے کا سفر از سر نو شروع ہوا لیکن اس میں مجھے نہ چچا دکھائی دیے اور نہ چچی۔ سورج چڑھ آیا توغالباََ وہ گاؤں دکھائی دیا جو منزل تھی۔ گاؤں میں داخل ہونے والی گلی کے قریب پہنچے تو ’جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی کیفیت سے دوچار ہوئے۔ گلی سے ننگی پنڈلیوں تک پیلے رنگ کے چغوں میں ملبوس اکالی سکھوں کا جتھا برآمد ہوا جن کے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں تھیں۔ کپڑوں اور ہاتھوں پر خون کے دھبے لیے وہ ست سری یا کال اور دوسرے نعرے لگا رہے تھے۔ ڈرے سہمے بچے کچے قافلے کو گھیرے میں لے کر گاؤں سے کچھ دور ہٹایا گیا۔ اکالیوں میں ایک سکھ ڈھول پیٹ رہا تھا، کبھی کبھی سنکھ بجایا جاتا۔ قافلہ سوچ رہا تھا کہ سکھ اب انتظار کس کا کررہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد گاؤں سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اور پھر اس سے شعلے اٹھنے لگے۔ فضا میں نا گوار سی بو پھیلنا شروع ہوئی جو لاشوں کے جلنے کی بو تھی۔ پاکستان کی آزادی کی قیمت ادا کرنے والے ان گمنام جانثاروں کے خون اور گوشت کے بھننے کی بو جو محض مسلمان ہونے اور پاکستان کے تصور سے ہمدردی کے جرم میں جل رہے تھے، فضا دہشت ناک ترین اور جنونی انداز میں پیٹے جانے والے ڈھول کی لرزہ خیز آواز، دھوئیں، آگ، جلتی لاشوں کی بو، بستی راکھ، بھوک سے ہلکتے بچوں کی آوازیں اوراکالیوں کے نعروں سے معمور تھی۔ سنکھ کی کریہہ آواز میں اضافہ ہوا اور ایک سکھ نے نو عمر ماں کی گود میں شیرخواہ بچے کے پیٹ میں تلوار کی نوک جھونکی اور بچے کو نوک شمشیر پر فضا میں بلند کر دیا۔ ننھی سی جان سے خون کا فوارہ ابلا، ممتا تلوار کی نوک پر لٹکے بچے کو چھیننے کے لیے جھپٹی تو دوسری تلوار نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد خوفناک رقص شروع ہوا۔ ہر طرف تلواریں اور ان سے کٹتے ہوئے جسم دکھائی دے رہے تھے اور ایک دوسرے پر گررہے تھے۔ ہم دونو ں بھائی دوسروں کے خون میں نہا چکے تھے لیکن مجھ میں ایک دو منٹ سے زیادہ اس کیفیت کو دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ مجھ پر کوئی گرا اور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو ایک لاش کے نیچے میرا سر دبا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنا سر اور ریت سے دبا ہوا اپنا چہرہ نکالا، گرم ریت سے منہ، ناک اورآنکھوں میں اذیت ناک جلن ہو رہی تھی۔ طبیعت سنبھلی تو معین کی تلاش شروع کی جو کہ قریب ہی لاش کے نیچے نیم بے ہوشی میں دبا ہوا تھا۔ منظر دیکھا تو ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ کچھ زخمی تھے لیکن چلنے پھرنے سے معذور اور بری طرح زخمی تھے۔ ہمیں دیکھ کر زخمیوں نے پانی مانگا قریبی کھیت میں پانی دینے والا نالہ تھا۔ جس میں قمیض ڈبو ڈبو کر ان زخمیوں کے منہ میں نچوڑتے رہے۔ کئی زخمیوں نے پانی پی کر ہمارے سامنے آخری ہچکی لی۔ متین الرحمن لکھتے ہیں کہ ’آخری ہچکی لے کر زندگی کا سفر ختم کردینے کا غم انگیز منظر ذہن کو کیسا ماؤف کر دینے والا ہوتا ہے۔ اس تاثر کو میں آج تک فراموش نہیں کر سکا‘۔ اس کے بعد متین الرحمن اور ان کے بھائی زندہ دفن ہونے سے بچے اور ایک کھیت میں کچھ عرصہ اذیت ناک حالات میں چھپ کر گزارا۔ سکھوں کے ہاتھوں زخم کھائے، پھر ایک سکھ کی پناہ میں آئے اور پھر اسی سکھ کے غلام بننے سے بچے اور آخر کار ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہیں انار کلی مشہور جوتوں کی دکان چاؤلہ بوٹ ہاؤس کے مالک نیک دل شخصیت شیخ افتخار الدین نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جس کے کچھ عرصہ بعد یہ اپنے والدین سے مل گئے۔
یہ کہانی صرف ایک متین الرحمن کی نہیں بلکہ 1947ء کا سال پاکستانیوں کے لیے بھرا پڑا ہے ان ہولناک و درد ناک واقعات سے ۔
ایسے ایسے واقعات کہ دل پھٹ جائے ۔
چاچا رحمت روتے روتے تقریبا بے ہوش ہو گیا ۔
کریمو نے اسے چپ کروا کر پانی پلایا اور کہا چاچا ہم ہیں ناں آپ کے بیٹے ہم نہیں بننے دیں گے یہ مندر ۔
چاچا رحمت پھر بولا کریمو !ہم نے پقکستان اپنے خرچے پہ مندر بنانے کے لیے عزتیں،لٹوائی تھیں ؟
بھائی ،بہن ہر رشتہ ،جائیداد سب کچھ قربان کیا تھا ؟
کریمو نے کہا چاچا وہ کہتے ہیں یہ مذہبی رواداری ہے ۔
چاچا بولا
اوئے کریمو ! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور عام معافی کا اعلان کیا تو کیا آپ نے مکہ کے مشرکین کے لیے کوئی بت کدہ بنایا تھا ؟
کیا مدینہ کے یہودیوں کے لیے کوئی معبد بنایا تھا ،کیا آپ نے عیسائیوں کے لیے کوئی گرجا بنایا تھا ؟
نہیں ناں؟
تو آج کا مسلمان رحمت العالمین سے بڑھ کر کیسے رحیم ہو گیا ؟
یہ لوگ ان سے بڑھ کر انسانیت کو جانتے ہیں؟
اللہ سے بڑھ گئی ان کی عقل یا ان کا رحم ؟
کریمو بولا سچ کہہ رہا ہے چاچا تو ،پریشان نہ ہو ان شا اللہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
ہم پرتھوی کے بیٹے نہیں
ہم غزنوی کے بیٹے ہیں ،ہم بت شکن ہیں ۔
ہم سومنات توڑنے والے کبھی مندر نہیں بننے دیں گے ۔
چاچا کو کچھ حوصلہ ملا اور نم آنکھوں سے دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گیا ۔