ہم اور ہماری قوتِ برداشت .تحریر : ریحانہ بی بی (جدون )

0
35

ہم اور ہماری قوتِ برداشت

انسان کی سب سے بڑی قوت, قوتِ برداشت ہے. اور حقیقت میں برداشت کرنا بزدلی نہیں ایک بہادری ہے کہ کسی دوسرے کے اختلاف رائے کو آپ کھلے دل سے برداشت کرلیتے ہیں. جتنی آپکی قوت برداشت مضبوط ہوگی اتنا ہی آپ خوش رہنے میں کامیاب ہونگے….
مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اس دور میں کوئی ماں باپ کی گالی دے تو ہم اسکو جان سے مارنے پہ تُل جاتے ہیں اور اگر وہی ماں باپ جب اولاد کے کسی غلط کام پر اسکو ڈانٹیں یا غصہ کریں تو اولاد نافرمانی کرنے پر اتر آتی ہے. ماں باپ کے آ گے نہ صرف اونچی آواز میں بولنے لگتی ہے بلکہ اُنکی آ نکھوں میں آنکھیں ڈالنے لگتی ہے.
کئی حضرات گھر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں کہ ہماری بےعزتی ہوگئی ہے. وہ اپنی انا کا مسلہ بنا لیتے اسکو… وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس کی ڈانٹ کو وہ اپنی بےعزتی سوچ رہے اسی ہستی کی بدولت دنیا میں تشریف لائے, اسی ہستی نے اُنکو پالا پوسا, پڑھایا لکھایا…
اسکی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے جسکی وجہ سے غصہ انکی شخصیت میں رچ بس گیا ہے.
قوت برداشت نہ ہونے سے کئی شادیاں ناکام ہوجاتیں ہیں, مثلاً آپ اپنے پارٹنر کی چھوٹی سی غلطی پر بھی اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اسطرح رشتوں میں خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے.
یہاں قصور کسی ایک پارٹنر کا نہیں دونوں طرف کا بھی ہوسکتا ہے. مرد اپنے پسند کی آیات حفظ کیے ہوتا ہے کہ بیوی پر اسے برتری حاصل ہے سو وہ ایک حاکم کی طرح خود کو سمجھنے لگتا ہے اور بیوی کے لئے اُسکے مزاج اسکے خاندان اسکی خوشی اسکی پسند ناپسند معنی رکھے.
جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں ناچاقیاں جنم لینے لگتی ہیں. اور پھر بات بات پہ اسکی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے. بعض اوقات اولاد کے سامنے.. اور پھر وہ اولاد کیا احترام کریگی ؟؟
نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ گھر آخر ٹوٹ جاتا ہے .
آج کی دنیا میں لڑائی جھگڑے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں قوت برداشت کی کمی ہے.
بہترین انسان وہ ہے جو مسائل حل کرتا ہے اور بدترین انسان وہ ہے جو مسائل پیدا کرتا ہے.
آج کی سیاست کو دیکھ لیں!
اگر ایک پارٹی کسی دوسری پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو بدلے میں اس سے بھی سخت الفاظ میں جواب آ تا ہے کہ میں ایسا نہیں تم ایسے ہو تم ویسے ہو وغیرہ وغیرہ کی سیاست جاری ہے. بس ایک دوسرے کی کردار کشی شروع ہوجاتی ہے.
خود اپنے لئے بہترین وکیل کی طرح اپنا دفاع کرنے لگتے ہیں.

اور تو اور ہمارے معاشرے میں اگر کسی کا کسی سے جھگڑا ہوتا ہے تو فریقین گولیاں برسانے لگتے ہیں اور کئی گھرانے انہی جھگڑوں کی وجہ سے اجڑ گئے.

دیکھیں زندگی ایک بار ملتی ہے اسے نفرتوں اور اختلافات میں ضائع نہ کریں. محبتیں بانٹیں کیونکہ ایسا کرنے سے دل کو بھی سکون ملے گا..

کچھ چیزوں کو, کچھ باتوں کو, کچھ لوگوں کو نظرانداز کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیں کیونکہ ضروری نہیں ہم ہر عمل کا ایک ردِعمل دکھائیں کیونکہ ہمارے کچھ ردعمل صرف اور صرف ہمیں ہی نقصان دیں گے بلکہ ہوسکتا ہے ہماری جان بھی لے لیں.
دنیا میں سیاست دان ہوں, حکمران ہوں یا عام انسان انکا اصل حسن انکی قوت برداشت ہوتی ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر برداشت کیسے پیدا کرسکتے ہیں..
بہت آسان جواب.. حضرت محمد کی حیات طیبہ کو مد نظر رکھ کر.
ایک بار ایک صحابی نے رسول اللہ سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے زندگی کو پُرسکون اور خوبصورت بنانے کا کوئی فارمولا بتا دیں.
آپ نے فرمایا غصہ نہ کیا کرو.

دیکھا جائے تو غصہ دنیا میں 90 فیصد مسائل کی ماں ہے اگر انسان اپنے غصے پر قابو پالے تو اسکی زندگی کے 90 فیصد مسائل حل ہوجاتے ہیں.
جس شخص میں قوت برداشت ہے وہ کبھی ہار نہیں سکتا.

@Rehna_7

Leave a reply