ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے، چیف جسٹس،

0
33
supreme court

ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے، چیف جسٹس،
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے سے متعلق وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی

رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ وفاقی حکومت نے اراکین اسمبلی کو کوئی ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے،اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے سے متعلق وزیراعظم کی دستخط شدہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہوئی

سپریم کورٹ میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے،فنڈز سے متعلق سندھ حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں داخل کروا دیا،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز آئین کے مطابق دیئے جاتے ہیں،وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کردی

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا جواب مدلل ہے،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں،حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو فنڈز جاری کیے گئے ہیں، این اے 65 کا رکن حکومت کی اتحادی پارٹی کا ہے،کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا سکتے ہیں؟ کیا حلقے میں سڑک کےلیے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے؟ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں امید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے؟ وزیراعظم نے کہا 5 سال کی مدت کم ہوتی ہے،وزیراعظم کو چاہیے کہ ووٹ میں توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں،ہم دشمن نہیں،چاہتےہیں آئین پرعمل اورکرپٹ پریکٹس ختم ہو،گزشتہ روز ٹوئٹس کی فوج میرے خلاف رہی، اس کا ذکر نہیں چاہتا، میرانہیں خیال آرٹیکل248سیاست کے متعلق وزیراعظم کوتحفظ دیتاہے

اٹارنی جنرل نے کہا کہ واٹس ایپ والی دستاویزات آپکی شکایت ہے، جائزہ لیں گے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کررہاہوں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وزیر اعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے،وزیر اعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلقہ ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا،

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں، اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کر دیا

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکریٹری سے مانگا گیا تھا،حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے،

اٹارنی جنرل کیجانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شکایت کنندہ قرار دینے پر چیف جسٹس نے مقدمہ نمٹا دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور ایک معزز جج ایک مقدمے میں مخالف فریق ہیں،

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے معاملے پر اخباری خبر پر نوٹس لیا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کا اراکین اسمبلی کو فنڈز دینا آئین و قانون کے مطابق ہے؟، فنڈز آئین، قانون، عدالتی فیصلوں کےمطابق ہیں تو معاملہ بند کردینگے، اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کریں۔

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز آئین و قانون کے مطابق ہوئےتو چیپٹر ختم کردینگے، ترقیاتی فنڈز کا معاملہ آئین کے مطابق نہ ہوا تو کارروائی ہوگی

Leave a reply