ہمارا سوشل فیبرک اور "سازشی” تھیوریاں — اشرف حماد

0
27

اپنے یہاں اگر کسی کو زُکام ہوجائے تو وہ ایک ہی سانس میں "انکشاف” کرتا ہے کہ یہ ایک "بین الاقوامی سازش” ہے۔ اِسی طرح اگر اپنی ہی لاپرواہی سے کسی کی گائے گُم ہوجائے تو وہ اس کو فوری طور "خطرناک سازش” قرار دیتا ہے۔ سازشی مسئلہ(Conspiracy Theory) گھڑ لینے میں ہم بڑے ماہر واقع ہوئے ہیں۔ کوئی عام سا پرابلم بھی ہو جب تک نہ ہم اسے "گہری سازش” قرار دیں تب تک ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا ہے۔

ہمارے سماجی پیرہن کو اتنے داغ لگ چُکے ہیں کہ اس کی ہیئت(Shape) مسخ ہونے کا خدشہ نظر آتا ہے۔ جی ہاں مُنشیات کے داغ، ڈرگ ٹریفک کے داغ، چرس، گانجا، افیون، ہیروین اور مےخواری کے داغ، خودکُشی، خود سوزی اور بہوؤں کو زندہ نذر آتش کرنے کے داغ، شادیوں پر بے پناہ اسراف کے داغ، چوری و سرقہ بازی کے داغ، بےحسی، بددیانتی اور رشوت خوری کے داغ وغیرہ، وغیرہ۔ یہ داغ ہمارے سوشل فِیبرِک پر اتنے سخت گہرے ہوچکے ہیں کہ اس پیرہن میں اب ان کی وجہ سے بڑے بڑے چھید ہونے لگے ہیں۔ اگر معاشرتی برائیوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا تو ہمارا سماجی پیرہن ایک چیتتھڑا بن کر رہ جائے گا۔

ایک دل خراش خبر کے مطابق جُمعہ کو حکام نے بتایا کہ بڈگام ضلع میں پولیس نے دو خواتین سمیت تین افراد کو گرفتار کرکے بُردہ فروشی گینگ کا پردہ فاش کیا ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا تھا 14 مظلوم خواتین کو بچا لیا گیا جبکہ اور مزید گرفتاریاں ہوسکتی ہیں۔

ضلع میں خواتین اغوا کاری کے مذموم فعل کی اطلاع پر بروقت اور قابلِ تحسین کارروائی کرتے ہوئے، بڈگام پولیس کی فعال ٹیم نے موضع ڈلی پورہ میں ایک مخصوص جگہ پر چھاپہ مار کر شمیم ​​احمد بٹ کے گھر سے 14 بے بس خواتین (جن میں کئی نابالغ بچیاں بھی تھیں) کو محفوظ بنا لیا۔ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا کہ گرفتار ملزمان بشری اغوا کاری میں ملوث تھے اور اس کے ذریعے خواتین کو مختلف جگہوں سے اغوا کرکے ضلع بڈگام اور وادی کی دوسری جگہوں میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔

سماجی اعتبار سے یہ ایک باعث شرم اور سنگین نوعیت کا جرم ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن اس انسانی سمگلنگ میں جو ملوث افراد ہیں وہ بڈگام ضلع کے مقامی باشندے ہیں۔ نہ وہ غیر ریاستی ہیں اور نہ ہی غیر ملکی ہیں۔ لہٰذا اس قبیح فعل کو ہم کیسے کوئی "خطرناک سازش” قرار دے سکتے ہیں(جو کہ ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے)۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ کشمیر میں اب زیادہ تر لوگوں کو راتوں رات امیر بننے کا آسیب سوار ہو گیا ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹے۔ اس میں اگر کسی کا حق مارا جائے، کسی کا گلا کاٹنا پڑے، کسی کو لوٹنا پڑے اور کسی کے یہاں ڈاکہ ڈالنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سماجی بدعات، معاشرتی برائیوں، جہیز، اسراف، حق ماری، استحصال، بلیک میلنگ، منشیات سمگلنگ، ڈرگ ایڈکٹنگ اور اس نوعیت کی قبیح برائیوں سے باز آجائیں۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں کے نقائص نکالنے کے بجائے خود احتسابی کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ ورنہ سازشی تھیوریاں تخلیق کرنے سے ہمارا معاشرہ صحیح ڈگر پر کبھی نہیں آسکتا ہے۔

Leave a reply