قدرتی و تعمیراتی فن کا حسین امتزاج- پاکستان تحریر: سید غازی علی زیدی

0
53

سرزمین پاکستان کو خالق کائنات نے بے انتہا خوبصورت نظاروں سے مزین کیا ہے۔ کہیں دیوسائی کا ٹھنڈا صحرا تو کہیں تھر کا ریگستان، کہیں کشمیر جنت نظیر تو کہیں حسن چترال کا اسیر، الحمدللہ دل کھول کر حسن عطا کیا گیا ہے اس ارض پاک کو۔
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پنہائے فلک تیرا وطن
قدرتی صناعی سے بھرپور سبزہ زار چمن ہوں یا انسانی کاریگری کا شاہکار عظیم الشان تعمیراتی عمارتیں، پاکستان بلاشبہ دونوں میں بے مثال ہے۔ میلوں پھیلے صحرا، پراسرار وادیاں، خواب ناک جھیلیں، بل کھاتی ندیاں، فلک بوس پہاڑ، گھنے جنگلات، قدیم ترین چٹانیں، برف پوش چوٹیاں، نایاب چرند پرند، قیمتی جواہرات، رسیلے پھل، گنگناتی آبشاریں اور خطرناک ترین چشمے، تعمیراتی حسن کے نمونے، تاریخی کھنڈرات، نادر کاریگری کے شاہ پارے، مساجد و درگاہیں، ثقافت و اقدار کے امین فن تعمیر کے نادر نمونے، غرض پاکستان رنگ و نور اور حسن و جمال کا بہترین امتزاج ہے۔ تہذیب و ثقافت اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔
پاکستان قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ – مہر گڑھ سے موہن جوداڑو تک، گندھارا سے ہڑپہ تک، مختلف ادوار تاریخی ورثہ کی صورت میں محفوظ ہیں۔ پاکستان کا تاریخی ورثہ ہماری صدیوں پرانی تہذیب کی نمائندگی کرتاہے۔
ہر خطہ ارض اپنی مخصوص و منفرد روایات، تہذیب وثقافت کا حامل ہوتا ہے اور یہی طرزِ معاشرت نہ صرف قوموں کی تاریخ مرتب کرتی بلکہ معاشرتی رہن سہن کی بھی عکاسی کرتی۔ تہذیب و ثقافت کا تحفظ کئے بغیر کوئی ملک دنیا میں اپنی شناخت قائم نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ ہمارا ملک قدیم ترین تہذیبوں کا وارث ہے۔ یہاں کے طرز ثقافت میں مختلف رنگوں اور تہذیبوں کی واضح چھاپ ہے۔ مکلی کا قبرستان ہو یا جہلم کا قلعہ، بدھا کے نایاب مجسمے ہوں یا مغلوں کے نارد زیورات، شاہی قلعہ لاہور ہو یا نور محل بہاولپور، لارنس گارڈن ہو یا شالیمار باغ، ہر تہذیب، ہر دور کے حسین اثار اپنی الگ چھب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
وہی قومیں تاریخ میں زندہ و جاوید رہتی ہیں جو اپنے تاریخی ورثے کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کیلئے اسے محفوظ بھی بناتی ہیں۔ تاریخ میں نہ صرف عجیب کشش ہوتی بلکہ بے شمار اسباق بھی پوشیدہ ہوتے۔ ایک علم کا گہرا سمندر ہوتا جسے تلاش کرنا ہوتا گہرائیوں کو ناپنا ہوتا تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں ان اسرار و رموز سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو فراموش کرنے والے نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ ماضی کی روایات ، اقدار میں سبق بھی ہوتا اور عبرت بھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی سے دستبردار ہو جاتی ہیں ان کا مستقبل بھی ختم ہو جاتا۔ اس لئے ماضی کی اقدار کی حفاظت اور نسل نو کا ان سے تعارف مستقبل کو محفوظ و تابناک بنانے کیلئے از حد ضروری ہے۔ نہ صرف ہمارا قومی فریضہ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے جس سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔
ہر روز نئے لوگ ، نئی رت ، نئے ساحل
یہ زندگی نایافت جزیروں کا سفر ہے
@once_says

Leave a reply