ابن قاسم کی فریاد۔۔از قلم خنیس الرحمن

0
27

ٓٓکشمیری آج ایک قابض فوج کے خلاف آپ کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ہر کشمیر ی اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتاہے اور یہ رشتہ تاریخی رشتہ ہے۔اس رشتے کا تعلق ہمارے دین سے ہے۔اس رشتے سے بڑا اور کوئی رشتہ نہیں۔جب میں ایک دفعہ اپنے والد سے ملنے جیل میں گیا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا آپ جیل میں کیوں ہیں تو میرے بھائی نے کہا کہ ابو ہوم ورک نہیں کرتے تھے تو اس وجہ سے ان کو انڈیا نے جیل میں ڈال دیا ہے تو میں نے کہا ٹھیک ہے۔ایک دفعہ مجھے اپنے ابو کی بہت یاد آرہی تھی تو میں نے جان بوجھ کر ہوم ورک نہیں کیا۔میں نے سوچا کہ شائد اس طریقے سے میں اپنے والد کے ساتھ رہ سکوں۔لیکن ایسا نہیں ہوا تو میں اپنے والد کے پاس گیا تو میرے والد نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنی کمر سے اپنی شرٹ ہٹائی تو اس پر ٹارچر کے نشان تھے۔میں نے اپنی آنکھیں بند کیں میں نہیں دیکھ سکا تو میں نے اپنے ابو سے کہا یہ کس نے آپ کے ساتھ کیا ہے۔یہ کس نے کیوں آپ کے ساتھ کیا ہے تو ابو نے کہا انڈیا۔۔چھوٹا سا تھا تب میں۔۔کشمیر میں بچے سکول بیگ سے زیادہ تابوت اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔جو بھی پاکستان میں ارباب اقتدار ہیں آپ انہیں کہیں وہ کشمیر کے لیے کچھ کریں کیونکہ صرف باتوں سے نو لاکھ فوج کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔آپ کو ضرورت ہے تب تک جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔بہت ظلم ہوچکاہے۔پچھلے سترسال سے کشمیری لاک ڈاؤن میں رہ رہے ہیں۔اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی قوم اس ایشوکو اٹھائے۔کشمیر میں لوگ کیا سڑکوں یا کسی ڈویلپمنٹ کے لیے لڑ رہے ہیں نہیں انڈیا سب کچھ دینے کو تیار ہے۔وہ سری نگر کو سمارٹ سٹی بنانے کو تیار ہے۔کشمیر ی کہتے ہیں ہمیں روٹی،کپڑااور مکان نہیں چاہیے ہم آدھی روٹی کھائیں گے لیکن سر نہیں جھکائیں گے۔یہ بات یاد رکھیں کہ کہ کشمیریوں کا آپ پر ایک قرض ہے اویہ مسئلہ کسی خاص فرد یا خاندان کا نہیں سب پاکستانیوں کا ہے۔۔
یہ الفاظ ایک ایسے نوجوان کے ہیں جس کی والدہ اور والدہ اپنے آپ کو تحریک آزادی کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔آج وہ بھارتی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔جن کا جر م یہ ہے وہ آزادی کی صدا بلند کرتے ہیں۔یہ احمد بن قاسم کے الفاظ ہیں جو انہوں نے شاہراہ دستور پر ملین مارچ سے خطاب کے موقع پر کہے ایک وقت تھا ان کی والدہ پاکستان کے نام پاکستان کے صاحب اقتدار کے نام کشمیریوں کا پیغام بھیجا کرتی تھیں آج وہ بھارتی عقوبت خانوں میں پاکستان کا پرچم لہرانے کی وجہ سے زندان میں ہیں اس لیے آج خود بیٹا اپنی والدہ کا پیغام پاکستانیوں کو پہنچا رہا تھا۔احمد بن قاسم نے ان مختصرالفاظ میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم ان کی مشکلات اور ان کی فریاد کو ہمارے سامنے رکھ دیا،احمد کے والد ڈاکٹر قاسم فکتو جنہیں کشمیر کا نیلسن منڈیلا بھی کہاجاتا ہے،چھبیس سال سے اودھم پور کی جیل میں پابندسلاسل ہیں۔انہیں پہلی مرتبہ 1993ء میں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجا گیا اور پھر بعد میں بھارتی سپریم کورٹ نے جنوری 2003ء میں انہیں تاحیات عمر قید کی سزا سنادی تھی۔یوں ان کی ساری زندگی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزری ہے۔بھارتی حکومت اور فوج نے اس طویل عرصہ میں انہیں اور ان کے اہل خانہ کو سخت اذیتیں پہنچائیں اور جدوجہد آزادی سے پیچھے ہٹانے کی کوششیں کیں لیکن غاصب بھارت کا ظلم وجبر انہیں جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔1993میں گرفتاری اور6سال کی نظربندی کے بعدعدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیاتھا لیکن بھارتی فورسز نے انہیں 2002ء میں نئی دہلی کے اندرا گاندھی ائرپورٹ پر اس وقت دوبارہ گرفتار کرلیا جب وہ لندن میں کشمیر کے حوالے سے ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے۔اس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود محض تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے جرم میں گرفتاررکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر قاسم فکتو مقبوضہ جموں کشمیر اور جنوبی ایشیا میں سب سے لمبی قید کاٹنے والے سیاسی قیدی ہیں۔سیدہ آسیہ اندرابی سے شادی کے بعد ان کی اہلیہ اور چھ ماہ کے بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم سیدہ آسیہ اندرابی اوران کے بیٹے کو1995ء میں رہا کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر قاسم فکتوکی سزا برقرار رہی۔ مسلم دینی محاذ کے سربراہ بھی ہیں انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی اور 125قیدیوں کو گریجویشن کرائی۔عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا دی تھی جو 14سال بنتی ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت نے انہیں 26 سال سے جیل میں بند کر رکھا ہے لیکن کوئی ان کی آواز سننے والا نہیں ہے۔ جیسا کہ احمد نے کہا کہ کشمیری پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں آج ان کے والد بھی کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی تکمیل کے لئے جیل میں ہیں۔ذرائع کیمطابق احمد کے والد ڈاکٹر قاسم فکتو کو بھارت کی طرف سے بہت بھاری پیشکش کی گئی۔ ان کو اسلامک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے حیثیت سے تعینات کرنے کی پیش کش کی گئی،اس کے علاوہ 2002 کے دوران آئی بی کے چند افسران نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی پیش کش بھی کی تھی۔ اسی طرح انہیں وزارت تعلیم کاقلمدان بھی سنبھالنے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے ان سب کو ٹھکرا دیا۔احمد کی والدہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ تحریک آزادی کے لیے آوازبلند کرنے والی واحد خاتون ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ جیلیں کاٹیں۔آج بھی سیدہ آسیہ اندرابی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔انہیں بھی صرف پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے وہ اپنے پروگراموں میں پاکستان کا پرچم لہراتی ہیں۔اپنے گھر پر پاکستانی پرچم لہراتی ہیں تو ان کے گھر کو بھارت کی طرف سے سیل کردیا جاتا ہے۔وہ یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتی ہیں ان پر غداری مقدمہ کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔وہ برملا دوٹوک کہتی ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ جینا مرنا پسند کرتے ہیں۔احمد جس طرح سے کہہ رہے تھے کہ ہر کشمیر ی اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتاہے اور یہ رشتہ تاریخی رشتہ ہے۔اس رشتے کا تعلق ہمارے دین سے ہے۔اس رشتے سے بڑا اور کوئی رشتہ نہیں۔ان کی والدہ کا یہی جرم تھا وہ کہتی تھیں کہ اسلام کی بنیاد پر،ایمان کی بنیاد پر،قرآن کی بنیاد پر،محمدﷺ کی محبت کی بنیاد پر ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔آج کشمیر میں مسلسل کرفیو کو ۱سی سے زائد دن گزر چکے ہیں ہمیں جاگنا ہوگا۔لوگ کہتے ہیں جلسوں،تقریروں اور پرچم لہرانے سے کیا ہوتا ہے آج وہ پاکستان کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں،جیلیں کاٹ رہے ہیں،گولیاں کھا رہے ہیں ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ ہم ان کے لیے آواز بلند کرسکیں۔آسیہ اندرابی کہا کرتی ہیں کہ پاکستان مدینہ ثانی ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم بھی یہی کہتے ہیں آج ریاست مدینہ کی بیٹی کا لخت جگر ہم سے فریاد کررہا ہے کہ کشمیریوں کا آپ پر قرض ہے ہمیں اس قرض کا بدلہ چکانا ہوگا۔

Leave a reply