ابن عربی اور نظریہ وحدت الوجود۔۔ تحریر: آصف شاہ خان

0
130

ہم میں سے بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ابن عربی اور لفظ وحدت الوجود کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ابن عربی کے کسی بھی تصنیف میں ہمیں وحدت الوجود کا لفظ نہیں ملتا ہے۔شیخ الاکبر ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ کیلئے پہلی بار لفظ وحدت الوجود ابن عربی نے نہیں بلکہ ابن تیمیہ رحیم اللہ نے استعمال کیا ہے۔ مشہور محدث ابن تیمیہ نے شیخ الاکبر ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ پر تنقید کے طور پر اس کو وحدت الوجود کا نام دیا تھا اور ابن عربی پر فتویٰ لگایا تھا۔
شیخ الاکبر ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ” میں خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں ایک تصور پیش کیا ہے ، اس تصور کو ہم اگر آسان الفاظ میں بیان کرنا چاہے اس کی یہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک حقیقی وجود ہے اور وہ ہے اللّٰہ تعالیٰ کا۔۔۔
وجود باری تعالیٰ فلسفے کا ایک مسلہ ہے لہذا ہم ابن عربی کے اس فلسفے کو اصولوں کے مطابق بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔ ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ کو ہم غور سے دیکھیں تو اس کے مختلف معنوی پہلؤں نظر آتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو بڑا مشہور ہوگیا ہے وہ یہ پہلو ہے جس کو لیتے ہوئے ابن تیمیہ نے ابن عربی پر تنقید کی ہے اور اس کو جواز بناتے ہوئے ابن عربی پر فتویٰ لگایا یے۔ یہ معنوی پہلو آج کل بہت عام بھی ہے زیادہ تر صوفیاء، ادباء اور علماء ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ سے یہ مطلب لیتے ہیں اور اس کو وحدت الوجود سے ہی یاد کرتے ہیں- وحدت الوجود کے ابن تیمیہ کا بیان کردہ پہلو یہ ہے کہ ابن عربی کی اس بات کا کہ ایک حقیقی وجود ہے اور وہ ہے اللّٰہ تعالیٰ اس سے مراد ہے کہ سب مخلوقات اور سب چیزیں اللّٰہ کے وجود کا حصہ ہیں یعنی سب واحد چیز ہے اور اس سے مراد لیتے ہوئے ابن تیمیہ نے اس کو وحدت الوجود کا نام دیا جس کا مطلب ہے کہ سب ایک ہی وجود ہے۔ اگر ہم اس پہلو کو دیکھ لے تو یہ پہلو نظریہ حلول کے طرح نظر آتا ہے یا یوں سمجھئے کہ یہ نظریہ حلول کی ایک شکل ہے۔ اور نظریہ حلول کو اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو قرآن اور حدیث کی تعلیمات کا مکمل مخالف نظر آتے ہیں اور تقریباً تمام ائمہ، فقہاء اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نظریہ حلول ایک کفریہ نظریہ ہے۔ لیکن جہاں تک بات ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ ہے اس کے اور بھی پہلوؤں ہیں اور ان پہلوؤں میں ایک زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے اگر ہم اس کو فلسفے کے اصولوں کے مطابق دیکھ لے۔ ابن تیمیہ کے علم اور اس کی نیت پہ ہم کسی قسم کا شک تو دور کے بات سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ اس کی نیت خراب یا علم میں کمی تھی لیکن ہاں ہم فلسفے کے مسئلے میں ان کے سوچ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ یہاں اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ابن تیمیہ کی بات غلط ہے لیکن یہاں اختلاف سے مراد یہ ہے کہ وجود باری تعالیٰ فلسفے کا مسلہ ہے اور فلسفے کے مسئلے میں اس نے جس معنوی پہلو کا انتخاب کیا ہے وہ تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ابن عربی کا اس تصور سے یہ مطلب نہیں تھا کہ سب ایک وجود ہے۔ اس بات کو ٹھیک ثابت کرنے کیلئے ہمارے پاس کچھ دلائل ہیں جس کو لے کر فلسفے اور عقلی طریقوں سے ہم ثابت کرسکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات ابن تیمیہ نے ابن عربی کے وفات کے بعد یہ فتویٰ دیا تھا تو لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن عربی نے اس بات کی نہ تصدیق کی ہے اور نہ اس کے انکار کے آثار ہیں کیونکہ اس وقت وہ زندہ ہی نہیں تھے۔ اور دوسری بات اس نظریے کے وہ پہلو زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے وہ پہلو یہ ہے کہ ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ میں ایک حقیقی وجود سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم سب اللّٰہ کے وجود کا حصہ ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اللّٰہ کے علاؤہ ساری چیزیں فانی ہیں صرف ایک اللّٰہ کا وجود ہے جو حقیقی ہے اور نہ ختم ہونے والا ہے۔ اس کے سوا تمام اشیاء کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور جب اس کے کوئی حثیت نہیں حقیقت نہیں تو پھر اس کا زکر ہم کیوں کرے اس لئے ابن عربی یہ لکھتا ہے کہ ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے اللّٰہ تعالیٰ کا باقی سب کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ہیں ۔ اس پہلو کو ہم اگر عقلی دلائل سے وضاحت کرنا چاہئے اور فلسفے کے اصولوں کے مطابق بحث کرنا چاہئے تو کچھ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ تصوف محبت کا اعلیٰ درجہ ہے جس میں انسان کی محبت کسی چیز یا انسان سے بڑھ کر اللّٰہ کے لافانی وجود سے ہوجاتی ہے اور پھر اس کی سب پسند نا پسند اللّٰہ کے رضا کیلئے ہی ہو جاتی ہے اس کے اندر تکبر اور غرور ختم ہو جاتا ہے اس کے اندر یہ بات ختم ہو جاتی ہے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں یا ایسا آدمی ہوں وغیرہ اور اس میں وہ اتنا مگن ہو جاتاہے کہ اس کو اپنی کوئی پرواہ نہیں رہتی ہے۔ اس کو اپنا وجود تو نظر آتا ہے لیکن اپنے فانی ہونے کے یقین کی وجہ سے اس کو اس کی کوئی حیثیت معلوم نہیں ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ یہ سوچتا ہے کہ جب کوئی حیثیت نہیں تو زکر کس لئے کروں۔ اس تصوف کے تصور کو اگر ہم ابن عربی کے نظریے کے ساتھ موازنہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ بھی ہمیں یہی بات فلسفے میں سمجھاتی ہے کہ حقیقی لافانی وجود اللّٰہ کا ہے باقی سب فانی ہیں۔ اس بات کو شرعی اصولوں سے بھی دیکھیں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن عربی کے تصور وجود باری تعالیٰ سے مراد یہ تھا کہ باقی وجودیں ہیں لیکن اس کے کو حیثیت نہیں کوئی حقیقت اور لافانیت نہیں لہذا اس کے ہونے یا نہ ہونے کے اقرار کا کیا فائدہ اس لیے اس وجود کا زکر کیا جائے جو حقیقت ہے ۔
یہ مضمون میری زاتی تجزیے اور فکر پر ہے لہذا میں غلط ہوسکتا ہوں آپ لوگ میری سوچ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔

__________________
تحریر: آصف شاہ خان

@Ibnepakistan1

Leave a reply