ابتدائی تعلیم میں مختلف زبانیں سیکھنے کی اہمیت۔ تحریر: محمد اسعد لعل

0
58

کسی بھی تعلیمی نظام میں پہلے بارہ سال اصل میں معاشرہ تعلیم دیتا ہے۔ اس میں ایک قوم اپنا علم، اپنی میراث منتقل کرتی ہے اور وہ ضروری صلاحیت پیدا کرتی ہے تاکہ بچہ جب شعور کی عمر کو پہنچے تو وہ اپنے فیصلے خود کر سکے اور اپنے میدان کے انتخاب میں بھی آسانی محسوس کرے۔ 

یہ جو بارہ سال کی تعلیم ہوتی ہے اس میں ایک بہت بڑا ٖ فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ بچوں کو زبانیں کون سی پڑھانی ہیں، کیونکہ زبان علم کا دروازہ ہے۔ اس میں بڑے سادہ اصول ہیں، یعنی آپ کو اپنی تعلیم کی ابتدا اپنی زبان سے کرنی چاہیے۔ اپنی زبان کا مطلب ہے وہ جو آپ کی ماں بولتی ہے، وہ جو آپ کے گھر میں بولی جاتی ہے۔ گھر کی اور تعلیم کی زبان کو ابتدا میں بالکل مشترک ہونا چاہیے۔ اس پر دنیا بھر میں اہلِ علم کا اتفاق ہے۔

ایک بچے کو پہلے ہی مرحلے میں زبانوں کے تصادم میں نہیں ڈال سکتے۔ بچہ اپنی زبان اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے۔ جب وہ ایک زبان سیکھ لیتا ہے تو اُس سے آپ تعلیم کی ابتدا کر لیں۔ اس کے بعد مختلف زبانیں اس کو سکھانی چاہئیں۔ اس میں بھی ایک تدریج رکھی جاتی ہے، یعنی یہ نہیں ہے کہ آپ پہلی جماعت ہی سے بچے کو کسی ایک زبان میں صحت کے ساتھ بولنے یا لکھنے کی تربیت دینے سے پہلے اس کے اندر ایک خلجان پیدا کر دیں ۔ایک تدریج کے ساتھ زبانوں سے تعارف کروایا جاتا ہے۔

یہ اس اصول پر ہوتا ہے کہ رابطے کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ رابطے کی زبان بعض اوقات کوئی قومی زبان بن جاتی ہے۔مثال کے طور پر ہمارے ہاں لوگ پشتو بھی بولتے ہیں، سندھ، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی بھی بولتے ہیں لیکن ان کے ہاں رابطے کی زبان کی حیثیت اردو کو حاصل ہو چکی ہے۔ اس لیے ہم اردو کو قومی زبان بھی کہتے ہیں۔ رابطےکی زبان سیکھنا بہت ضروری ہے۔

اس کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا اب ایک ویلج بن چکی ہے، دنیا میں مختلف جگہوں پر علوم پیدا ہو رہے ہیں۔ آپ ایک ہی جگہ پر نہیں رہتے بلکہ آپ کو آگے بھی بڑھنا ہوتا ہے، تعلیم کے لیے بھی دوسری جگہوں پر ہجرت کرنی ہوتی ہے تو آپ عالمی سطح پر انتخاب کرتے ہیں کہ رابطے کی زبان کیا ہو سکتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک خاص پسِ منظر کی وجہ سے انگریزی زبان عالمی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ دنیا میں اور بھی بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں، برحال کوئی ایک زبان آپ بین الاقوامی رابطے کی حیثیت سے سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔

آپ کا مذہب اسلام ،ہندومت یا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کے مذہب کی زبان جس میں آپ کی مذہبی کتاب ہے، مذہبی علم ہے تو وہ بھی کوئی زبان ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں وہ مذہبی زبان عربی ہے، تو اس وجہ سے عربی زبان سیکھنا بھی ضروری ہے۔ 

اس میں ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ ایک زبان آپ اس مقصد کے لیے سکھاتے ہیں کہ بچہ اس کو بولے گا بھی، اس کو سمجھے گا بھی، پڑھے گا بھی اور لکھے گا بھی۔۔۔۔ جب کہ کچھ زبانیں آپ اس مقصد سے سکھاتے ہیں کہ علوم تک رسائی ہو جائے۔ میرے نزدیک عربی زبان کو اس مقصد کے لیے سکھانا ضروری نہیں ہے کہ لوگ اس کو لکھیں اور بولیں، بلکہ صرف اس کو سمجھ سکیں یہی کافی ہے۔ تاکہ اللہ کی کتاب جس کو وہ ماننے والے ہیں اس کو براہِ راست پڑھ سکیں اور اس کو خود سے سمجھنے کے قابل ہو جائیں۔

بچوں پر کوئی دباؤ نہ بڑھے اس لیے عربی زبان کا نصاب ہی اس طرح بنانا چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں بچے کو وہ ضروری چیزیں سکھانے کا باعث بن جائے جو ایک مسلمان بچے کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اس نے نماز پڑھنی ہے، کوئی دعا کرنی ہے یا اپنے پیغمبر کی کچھ بتائی ہوئی چیزوں کو دہرانا ہے۔ یہ بہت معمولی چیزیں ہیں اور بچے بہت آسانی سے سیکھ لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس کے لیے ریڈر کی حیثیت باتدریج قرآن بن جائے، یہاں تک کہ وہ بارہویں سال تک پہنچتے پہنچتے قرآن مجید پورا کا پورا سمجھ کر پڑھ لے جس طرح ایک انگریزی زبان کا ریڈر پڑھتا ہے۔ یعنی ایک کتاب کی حیثیت سے قرآن سے وابستہ ہوجائے۔

اور یہ جو باقی چیزیں اسلامیات وغیرہ نصاب میں شامل کر کے بچوں پر بوجھ ڈالا ہوا ہے وہ ختم کر دینی چاہئیں۔ ان سب کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف چیزوں کو علمی طور پر جاننا، تاریخ سے واقف ہونا یا مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہونا یہ سب کچھ بعد میں آدمی کر لے گا۔ تاریخ بھی اگر پڑھانی ہے تو اس کو تاریخ کے طور پر پڑھائیے، اُس کو مذہبی چیز بنا کر نہ پڑھائیے۔

twitter.com/iamAsadLal

@iamAsadLal

Leave a reply