امریکاکےپاس کوئی مربوط پالیسی نہیں:طالبان حکومت کوتسلیم نہ کیاتومسائل بڑھیں گے:وزیراعظم

0
24

اسلام آباد:امریکاکےپاس کوئی مربوط پالیسی نہیں:طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیا تومسائل بڑھیں گے: اطلاعات کےمطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ افغان طالبان کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔

روسی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پورے خطے کیلئے اس وقت افغانستان سب سے اہم موضوع ہے، افغانستان اس وقت تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی ہے۔ 22 کروڑ عوام کیلئے پاکستان کا ٹوٹل بجٹ 50ارب ڈالر ہے۔ یہ کیسے ہوا کہ 3 لاکھ افغان فوج لڑی ہی نہیں، کیا پاکستان نے انہیں لڑنے سے منع کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے افغان سرزمین سے دہشتگردی کا بھی خطرہ ہے۔ انخلاء سے دو ہفتے قبل افغان آرمی ہتھیار ڈال دیتی ہے، ایس سی او سربراہی اجلاس میں افغانستان کے تمام ہمسایہ ملک شریک ہیں، پورے خطے کے لیے اس وقت افغانستان سب سے اہم ہے، وہ تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے، 40 سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا

عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کی واحد صورت مشترکہ حکومت ہے، بیرونی طاقتوں کے خلاف جنگ کو افغان عوام جہاد سمجھتے ہیں، طالبان نے 20 سال میں بہت کچھ سیکھا، امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ سے مسائل بڑھیں گے۔ ہمارے وزیر خارجہ کی امریکی وزیر خارجہ سےبات ہوئی ہے۔ تمام ہمسایوں ملک کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا، اس وقت امریکا کی افغانستان کے معاملے پر ایک مربوط پالیسی ہے یا نہیں، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ افغانستان غلط سمت چلا گیا تو مہاجرین کا مسئلہ بڑھے گا۔

انہوں نے کہا کہ سابق افغان حکومت کو افغانیوں کی اکثریت کٹھ پتلی سمجھتی ہے، سابق افغان حکومت کی افغانیوں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی۔

امریکی وزیر خارجہ کی سینیٹ کو حالیہ دی گئی بریفنگ کے سوال پر جواب میں انہوں نے کہا کہ کچھ ریمارکس پر بہت زیادہ افسوس ہے، پاکستان کو افغانستان میں ناکامی کا ذمہ ٹھہرائے جانے کا سننا ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہے، پاکستان وہ ملک ہے جس نے امریکا کی افغانستان میں جنگ کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی، ہمارا ملک کیسے اس جنگ میں مدد فراہم کرسکتا تھا، امریکا نے جنگ میں دو ہزار ارب ڈالر خرچ کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی چڑھائی کا حصہ بننے کے لیے کہا گیا جبکہ پاکستان کا نائن الیون کےساتھ کوئی لینا دینا نہیں تھا، ہم نے 150 ارب ڈالر گنوائے اور 70 ہزار سے ز ائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ کچھ لوگوں نے پاکستان کیخلاف ہتھیار اٹھا لیے اور فوج اور عوام پر خود کش حملے کیے، 50 مختلف مسلح گروہوں نے بٹ کر پاکستانی ریاست پر حملے کرنا شروع کر دیئے، اس وقت اسلام آباد قلعے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہیں، دنیا کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں، افغان طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے، افغان طالبان کے ساتھ بات کرنی چاہیے کیونکہ اب اگر پابندیاں لگائی گئیں تو وہاں پر بہت سارے مسائل ہوں گے، افغانستان کا 75 فیصد انحصار غیر ملکی امداد پر ہوتا تھا۔

بھارت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اچھے دوست ہیں، کرکٹ وہاں سبھی کو بہت پسند ہے، میں نے نیک نیتی کے ساتھ پوری کوشش کی ہمارے تعلقات بھارت سے اچھے ہو جائیں، مگر بدقسمتی سے بھارت میں اس وقت ایک دہشتگرد نظریے کی حکومت ہے۔ جو پاکستان مخالف نظریہ رکھتے ہیں اور جارحانہ رویے کے حامل ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ مشکل ہو رہا ہے کہ کیسے بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھاؤں، پھر انہوں نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر دی، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، جس کے بعد بھارت کے ساتھ تمام رابطے منقطع ہو گئے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دنیا کو طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی بہت فکر ہے مگر کشمیریوں پر نظر کیوں نہیں رکھتا جہاں پر 8 لاکھ فوج کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، کشمیریوں کے ہر حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، خواتین کے حقوق کی بات نہیں ہو رہی اور ان کی پامالی ہو رہی ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔

Leave a reply