عمران خان،معیشت و استحکام کیلئے خطرہ
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
عمران خان کے حالیہ اقدامات اور بیانات نے ایک بار پھر سیاسی ماحول کو پیچیدہ اور تنازعات سے بھرپور بنا دیا ہے۔ ان کی اعلان کردہ سول نافرمانی کی تحریک جو ماضی میں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے، اس بات کی غماز ہے کہ وہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف عوامی اعتماد کو متزلزل کر رہا ہے بلکہ ملکی معیشت اور سیاسی استحکام پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
عمران خان کا بیرون ملک پاکستانیوں سے یہ اپیل کہ وہ ترسیلات زر کو محدود کریں ایک غیر ذمہ دارانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ان ہی ترسیلات زر پر انحصار کرتا ہے جو بیرون ملک پاکستانی اپنے خاندانوں کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگر یہ رقم کم ہو جائے تو معیشت مزید بحران میں پھنس سکتی ہے اور اس کے اثرات سب سے زیادہ عام شہریوں پر پڑیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی فیملیز کی ضروریات کو نظرانداز کرکے کسی سیاسی نعرے کا حصہ نہیں بنیں گے۔
عمران خان کی سیاست اکثر جذباتی نعروں اور جھوٹے وعدوں پر مبنی رہی ہے۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں۔ جس کی حالیہ مثال پی ٹی آئی کے ایک حامی کا یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے 278 کارکنوں کی ہلاکت دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایسے بیانات کا مقصد صرف اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور عوام کو ایک نئے فریب میں مبتلا کرنا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھنے اور اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہے؟ یا وہ مسلسل جھوٹے وعدوں اور غیر حقیقت پسندانہ نعروں کے پیچھے عوام کو گمراہ کرتی رہے گی؟ عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے غیر دانشمندانہ فیصلے اور ناکام حکمت عملی نہ صرف ان کی جماعت بلکہ پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ماضی میں بھی ان کی سول نافرمانی کی تحریک ناکام ہوئی تھی اور اب بھی ایسی کسی کوشش کا نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔
پاکستان کو اس وقت ایک مضبوط اور مستحکم قیادت کی ضرورت ہے، جو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور ملک کو مزید انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے بجائے مثبت کردار ادا کریں۔بصورت دیگر ان کی سیاست کا نتیجہ ملک کے لیے مزید مشکلات اور بداعتمادی کی صورت میں نکلے گا۔