اخلاقیات کو مسخ کرنا آزادی صحافت نہیں، تجزیہ: شہزاد قریشی

0
27

آزادی صحافت کا مطلب ذمہ داری صحافت ہے صحافت کو ملی و قومی اقدار کا پابند بنانا اور اس پر سختی سے کاربند رہنا صحافیانہ ذمہ داری کا اولین تقاضا ہے۔ قومی تقاضوں کا سودا کرنا اور تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنا اور اپنے صفحات اور اسکرین پر اخلاقیات کا جنازہ نکال دینا کسی طور بھی آزادی صحافت کے زمرے میں نہیں آتا۔

بدقسمتی سے صحافیوں نے قومی فریضہ کو پس پشت ڈال کر سیاسی جماعتوں کے بیانیے پر چلنا شروع کر دیا ہے صحافی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ملک اور قوم کے مسائل کو پس پشت ڈال کر قصیدے لکھنا اور بولنا شروع کر دیا جس کا نقصان ملک و قوم کو ہوتا ہے۔ جو کچھ آج ہو رہا یا ماضی میں ہوتا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

اس وقت قوم جن اداروں پر فخر کرتی ہے وہ عدلیہ، پاک فوج اور میڈیا ہے جانبداری میڈیا کے لئے زہر قاتل ہے میڈیا کا کوئی ادارہ ہو یا کوئی فرد جب وہ جانبدار بن گیا تو وہ ختم ہو جاتا ہے یعنی میڈیا نے اپنی حیثیت اور وقار کو خود ہی ختم کر دیا۔ قارئین اور سامعین نہ تو کسی کی تنخواہ دیکھتے ہیں نہ کسی کا عہدہ و الفاظ دیکھتے ہیں اور انہی الفاظ سے اس کی قدر و قیمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

آج صحافی گروپوں میں تقسیم ہو کر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ وہ میڈیا اور صحافی جو ماضی میں قیادت کے فرائض انجام دیتے تھے قومی مسائل اور تحریکوں میں قائدانہ کردار اداکرتے تھے آج گروپوں میں تقسیم ہو کر سیاسی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کےقائدین کے فلسفوں پر چل کر اپنا وقار اور عزت دائو پر لگا رہے ہیں۔

میڈیا بدنام ہو رہا ہے کہ میڈیا یکطرفہ ہو گیا ہےبعض صحافیوں نے تو کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں اندھا دھند کام شروع کیا ہے۔ ہمیں اس ملک کو سیاسی انتشار اور بحرانوں سے بچانے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قومی معاملات اور ریاستی مفادات کو سامنےرکھ کر لکھنا اور بولنا ہوگا۔

ملک کا سیاسی مستقبل اور ملک کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے جڑا ہے۔ ملکی سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کی حکمرانی پارلیمنٹ کی بالادستی منصفانہ و شفاف انتخابات کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ سیاسی جماعتیں انتقامی راستوں کا انتخاب کرنا چھوڑ دیں سیاست میں تشدد ہلاکو خان اور چنگیز خان کا مذہب ہے۔

اقتدار اور عوامی حمایت یہ سب کچھ عارضی ہوتا ہے جو کسی کے پاس مستقل نہیں رہتا۔ شداد کی جنت نہ رہی ، فرعون کی خدائی نہ رہی الغرض کئی حکمران جو فلک بوس محلوں میں رہتے تھے زمین بوس ہو گئے۔

Leave a reply