اخلاقیات کا مآخذ تحریر:سید غازی علی زیدی

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

اخلاقیات کا مآخذ کیا ہے؟ اصول و اقدار کی پاسداری، حق وباطل کے تصور سے مکمل آگاہی ، شر سے مستقل لڑائی، فلسفیانہ تحقیق اور مسلسل جستجو۔ مختصراً جو علم انسان پر بھلائی اور برائی کی پہچان واضح کر دے، اچھائی برائی کا شعور دے، باہمی تعلق داری کو فروغ دے یہی علم اخلاق کی اصل روح ہے۔ خود احتسابی ایک مستقل جنگ ہے اصول و اقدار کی، تصورات و نظریات کی۔ ناقدانہ انداز میں خود کو سچ و جھوٹ کی کسوٹی پر وقتاً فوقتاً پرکھنے کی تاکہ اپنے اعمال و افعال کی واضح نیت آشکار ہو۔ یاد رکھیے بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جتنی نیت نیک ہو گی اتنا ہی انسان خود اعتماد اور ذہنی طور پر پرسکون ہو گا۔
اخلاقیات کسی ایک امر تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر و جامع موضوع ہے جس کی حدود ذات سے شروع ہو کر کائنات پر ختم ہوتی ہیں۔ انفرادی ہو یا اجتماعی، سماجی ہو یا مذہبی، عائلی ہوں یا قانونی غرض ہر شعبہ زندگی کے اعمال سے لیکر امور تک اخلاقیات کی پاسداری لازمی ہے۔ سیدھی راہ پر چلنے والے ہر حال میں اخلاقیات کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ فکری و عملی طور پر بہترین اخلاقیات کا تعین کرنا ہی اشرف المخلوقات ہونے کی اصل پہچان ہے۔
محبت، شفقت، مدد، ایفائے عہد، حق گوئی و صداقت اعلی ترین اخلاقی اقدار کے زمرے میں آتے ہیں لیکن یہ نہ تو نفسیات ہے نا انسانی فطرت بلکہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کے بالکل برعکس نفرت، جھوٹ، ایذارسانی، وعدہ خلافی ایسی علتیں ہیں جو انسانی شخصیت کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔
اخلاقیات کو اپنانے والا انسان نہ صرف خود کیلئے بلکہ پورے معاشرے کیلئے خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے۔ شعور و آگاہی سے بہرہ مند افراد ایک متوازن معاشرے کی بنیاد رکھتے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارے معاشرے میں سوچنا اور سمجھنا ایک غیر ضروری و قبیح فعل سمجھا جانے لگا ہے۔ عقل و شعور سے عاری لوگ نفسانفسی کی بھینٹ چڑھ کر اخلاقی طور پر مردہ لاش بن چکے ہیں۔ اصل اخلاقیات کا ادراک ختم ہو چکا۔ صرف پیسہ و اختیارات ہی کسی انسان کی عزت کا معیار بن چکے ہیں۔ بنیادی اخلاقی اقدار کی گراوٹ کا شکار معاشرہ فکری بانجھ پن کا شکار ہے لیکن باشعور و سنجیدہ افراد بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے بیٹھے۔جب تک ہم رجعت پسندی کو خیرباد کہہ کر درایت کو فروغ نہیں دیں گے تب تک ہم پسماندگی و تنزلی کا شکار رہیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے دانشور و اساتذہ بجائے متوازن تنقید اور اخلاقی اقدار کو رائج کرنے کے صرف پند و نصائح تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں انسانیت کی جگہ حیوانیت جڑ پکڑ چکی ہے جو کہ بگڑتے بگڑتے اس نہج پر پہنچ چکی کہ اب اخلاقیات بالکل مفقود ہو کر رہ گئی ہے۔
مثل حیواں، خوردن، آسودن چہ سود
گر بخود محکم نہ بودن چہ سود
Twitter: ‎@once_says

Leave a reply