ایمانداری کیا ھے ؟ تحریر .ڈاکٹر راہی

0
24

دنیا کا کوئی قبیلہ دنیا سے الگ نہیں
اس کائنات کی کی جڑ ایک ہے
مرکز ایک ہے
ساری کائنات ہمارا وطن ہے
اس دنیا میں پائی جانے والی ہر چیز (سارے وسائیل)تمام انسانوں کا مشرکہ ورثہ ہیں
کوئی بھی زبان مستقل نہیں
کوئی بھی نظریہ حتمی نہیں
کوئی بھی تہذیب حرف آخر نہیں
کوئی بھی گروہ عقل کل نہیں
کوئی بھی شے کامل نہیں
تاریخ گواہ ہے ہزاروں بولیاں ماضی کا قصہ ہوگئیں
ہزاروں رسمیں بدلیں
خیالات نظریات بدل گئے رہن سہن انداز تقاضے بدلتے گئے
سوچ کی سمت ہمیشہ روشنی کی طرف ہے
کوئی بھی سرحد مستقل نہیں رہی
اس دھرتی پر حکومتیں سرحدیں ہمیشہ بدلتی رہی ہیں
دریاوں کے رخ بدل رہے ہیں
کبھی گلیشیرزکے تیزی سے پگھلنے کا خوف ہے تو کبھی اوزون تہہ کے تباہ ہونے کی تشویش
سمندر کی لہروں بدلتے موسموں زلزلوں خانہ جنگیوں نے انسان کو کبھی ٹکنے ہی نہیں دیا
بدلتے ہوئےحالات کےساتھ ساتھ ہر مذہب کوبھی نئے تقاضوں کے مطابق تشریح کی ضرورت پیدا ہو رہی ہے
تو کیوں نا؟
مل بیٹھ کر آئندہ نسلوں کو تصادم سے بچانے کی کوئی سبیل تلاش کی جائے
ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اک دوسرے کو سنا جائے
باہمی احترام کو فروغ دے کر
مکالمے کے ذریعے مسائیل کا حل نکالا جائے
نیکی کوئی بھی گناہ گار شخص کر سکتا ہے
برائی کسی مومن سے بھی ہو سکتی ہے
ہدائیت پر سب کا برابر کا حق ہے یہ نصیب والوں کو ملتی ہے
ہدائیت کسی یہودی کو بھی نصیب ہو سکتی ہے کوئی مسلمان گھرانے میں پیدا ہو کر بھی بھٹک سکتا ہے
ہم نے خوامخواہ کی نفرتوں کی دیواریں بنا رکھی ہیں
نفرت بڑھنے کی وجہ طبقات کا اک دوسرے کے خلاف سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینا ہے
دنیا میں جتنی بددیانتی اہل قلم کر رہے شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ اتنی بد دیانتی کرتا ہو
اہل قلم نے اپنے اپنے طبقے کی خوشنودی کی خاطر قلم کے ذریعے ہمیشہ تصویر کا وہی رخ دکھانے کی کوشش کی ہے جس سے وہ راضی ہو
میں فنکشنل مسلم لیگ سے ہوں مجھے اس پارٹی کے سوا دوسری پارٹیوں کے خلاف بولنے میں آسانی محسوس ہوگی میں سنی ہوں شیعہ فقہہ کی خرابیاں خوب بیان کر سکتا ہوں
میں ہندوستان میں ہندو ہوکر مسلمانوں کی نیت پر سوال اٹھاوں گا کہ یہ بھارت سے مخلص نہیں
اور پاکستان میں مسلمان ہو کر ہندووں کی نیت پر شک کروں گا
پنجاب میں پیدا ہوکر سرائیکیوں کے خلاف سرگوشیاں کروں گا سندھی ہوکر پنجابیوں کو برا بھلا کہوں گا
ہر علاقے کی فضا الگ ہے
ہم نے اپنے دماغوں میں بھی ہر طرح کی سوچوں کی لکیریں کھینچ رکھی ہیں
مفادات کی خاطر ہم حالات سے سمجھوتا کر لیتے ہیں
جہاں ذاتی مفاد کی بات ہوتی ہےسچائی کو چھوڑ دیتے ہیں
ساری انسانیت تنہاتنہا ہوکر مر رہی ہے
ہم پر جو آسمانی آفات آتی ہیں وہ سرحدیں نہیں دیکھتیں رنگ نسل نہیں دیکھتیں
اکثر دیکھا ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے بڑی بڑی سپر پاورز بے بس دکھائی دیتی ہیں
انڈیا میں سیلاب آئےیاایران میں زلزلہ امریکہ میں طوفان آئے یا کہیں قحط سالی دنیا کا کوئی بھی ملک تن تنہا کچھ نہیں کر سکتا ترقی کے اس دور میں بھی ہم اپنے آفت زدہ علاقوں سے زندہ لوگوں کو بر وقت بچا نہیں سکتے
ہمارا جینا مرنا اک دوسرے سےوابسطہ ہے ہم اک دوسرے کی ضرورت اور سہارا ہیں مگر ہم اپنا قیمتی وقت خواہمخواہ کی لڑائیوں میں ضائع کر رہے ہیں
وسائیل کی برابر تقسیم اور اور اک دوسرے کےوجود کو تسلیم کئیے بغیر کوئی بھی مسلہ حل نہیں ہو سکتا
سارا پاکستان ہندووں سے پاک نہیں ہو سکتا
سارا بھارت ہندووں پر مشتمل نہیں ہوسکتا
یہودی فلسطین میں بھی جی رہے ہیں مسلمان اسرائیل میں بھی ہیں
دنیا کے امن کے لئیے لازم ہے کہ دوسرے طبقے کی برائی دیکھ کر اس کی اچھائیوں یانیکیوں اور خدمات کو نظر انداز نہ کیا جائے
سنی سنائی باتوں پر رائے قائم نہ کی جائے
مخالفت برائے مخالفت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا
ہم سچ صرف محدودلوگوں کے متعلق لکھتے ہیں
کوشش کر کے کبھی اپنی غلطیوں کو بھی تسلیم کیا جائے
جس دن ہم نے ایمانداری سے چیزوں کو پرکھنا اور ان کے متعلق ایمانداری سے لکھنا اور سوچنا شروع کیا
وہ کوشش پر امن دنیا کی منزل طے کرنے کے لئیے کسی عبادت سے کم نہیں ۔
Doctor Rahii

Leave a reply