معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے پاکستان کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کی معاشی سرگرمیاں مستحکم ہو رہی ہیں اور شرح سود میں کمی سے اس کی اقتصادی حالت میں بہتری آئی ہے۔
فچ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کی معاشی استحکام کی بحالی میں ہونے والی پیشرفت کو سراہا ہے اور اس کے قرض پروفائل کے لیے ساختی اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے اپنے معاشی استحکام کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، اور اس کے ساختی اصلاحات کے نتائج قرض کے انتظام کے لیے سودمند ثابت ہو رہے ہیں۔ فچ کے مطابق، یہ اصلاحات بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جائزوں، دوطرفہ اور کثیر الجہتی فنانسنگ کی توقعات پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں کمی، جو اب 12 فیصد پر آ گئی ہے، صارف مہنگائی میں کمی کی ایک اہم علامت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جون تک اوسط مہنگائی 24 فیصد تھی، جبکہ جنوری میں یہ 2 فیصد سے کچھ زائد رہی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی میں کمی کا رجحان نظر آ رہا ہے، جو معیشت کے استحکام کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
فچ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشی سرگرمیاں مستحکم ہیں اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہو رہی ہیں۔ معاشی نمو کے حوالے سے اندازے ہیں کہ یہ 3 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ کھاتے کا خسارہ کم ہو گیا ہے اور ترسیلات زر، زرعی برآمدات، اور سخت مانیٹری پالیسی کے اثرات کے باعث 1.2 ارب ڈالر کا سرپلس برقرار رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر تین ماہ کی درآمدات کے برابر ہیں، تاہم یہ مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔فچ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مالی سال 2025-2026 میں پاکستان کو 22 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ ان مجموعی ادائیگیوں میں سے 13 ارب ڈالر دوطرفہ ڈپازٹس ہوں گے، جو امکاناً رول اوور ہو جائیں گے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اقتصادی سطح پر کچھ بہتر پیشرفت ہوئی ہے، خاص طور پر مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس آمدنی آئی ایم ایف کے ہدف سے کم رہی، لیکن پرائمری سرپلس آئی ایم ایف کے ہدف سے زیادہ رہا۔ صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی بھی مکمل کر لی ہے۔آخر میں، فچ نے کہا کہ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ اور بیرونی فنانسنگ کی ضرورت میں کمی جولائی میں پاکستان کی مثبت ریٹنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم، اگر آئی ایم ایف جائزے میں تاخیر ہوئی تو یہ پاکستان کی منفی ریٹنگ کا سبب بن سکتا ہے۔