سلام کی اہمیت  تحریر: تیمور خان

0
57

@ImTaimurKhan

اسلام کا نظامِ حیات یہ سراسر امن اور محبت پہ مبنی ہیں، اسلام یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں امن ہو معاشرے میں افراد کے درمیان باہمی محبت ہو آپس میں اتفاق ہو الفت ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں امن ہوتا ہے یا آپس میں محبت کے تعلقات ہوں آپس میں ایک دوسرے کے لئے خیر خواہی کا جذبہ ہوتا ہے، تو اس معاشرے میں زندگی گزارنا، رزق حلال کمانا اور تمام امور سرانجام دینا نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے، اس کے برعکس ایک معاشرے میں امن نہ ہو، آپس میں ایک دوسرے کے لئے محبت نہ ہو ایک دوسرے کے لئے خیر خواہی کا جذبہ نہ ہو تو نہ وہاں کاروبار چل سکتا ہے نہ وہاں معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں، بلکہ بد عمنی کی وجہ سے اور محبت اور بھائی چارہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرہ ذوال کا شکار ہو جاتا ہے،

اسی لئے جہاں اسلام نے ہمیں دیگر تعلیمات عطا کی ہیں وہاں معاشرے کے افراد کے لئے آپس میں محبت کے لئے ایک علاقے کے لوگ، ایک محلے کے لوگ، ایک چت کے نیچے رہنے والے لوگ وہ جب آپس میں بعض چھوٹے چھوٹے چیزوں کا خیال رکھیں گے، تب جا کے ایک محلے کی سطح پہ، ایک علاقے کی سطح پہ اور ایک معاشرے کی سطح پہ امن اور محبت قائم ہوگا،

سرکارِ دوعالم ﷺ نے اسی امن کو قائم کرنے کے لئے اور پیدا کرنے کے لئے ارشاد فرمایا٫٫ آپ نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پہ 6 حقوق ہیں، اور یہ وہ حقوق ہیں کہ جو حقوق واجبہ نہیں ہے، ان حقوق کا درجہ مستحب اور نفل کا ہے، لیکن اگر ان چھوٹے چھوٹے حقوق کو ادا کیا جائے تو یقیناً پھر بڑے حقوق کو ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے، اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پہ 6 حقوق ہیں٫٫   1 جب بھی ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے سامنے آئے تو پہلے اس کو سلام کرے، تو یہ سلام کرنا ایک مسلمان کا۔دوسرے مسلمان پہ حق ہے، ہمارے شعریت کی تعلیمات کا سلام کے متعلق خلاصہ یہ ہے ، کہ سلام کرنا مسلمانوں کے جماعت پر یہ ایک مسلمان پر یہ سنت ہے، لیکن شعریت اور قرآن کریم کا یہ حکم ہے٫٫ جب ایک مسلمان سلام کرتا ہے تو اس کو سلام کرنا  پہل کرنا یہ تو سنت ہے، لیکن جس کو سلام کیا گیا ہو تو پھر اس کو جواب دینا یہ واجب ہے، اللہ نے سورہ نساء پانچویں پارہ میں ارشاد فرمایا٫٫ کہ جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس کے سلام کا جواب اچھے الفاظ میں کرو، اور اگر جواب اچھے الفاظ میں نہیں دے سکتے تو کم از کم جواب اتنا ہی دو جس طرح اس نے آپ کو سلام کیا ہے، ایک شخص ہے وہ سلام کرتا ہے، ٫٫اسلام علیکم؛؛ تو جواب دینے والے اس کو اچھا جواب دے، ٫٫ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ؛؛ جب سلام کیا جائے ٫٫اسلام علیکم ورحمتہ اللہ،، تو جواب دینے والے کو چاہئے کہ ٫٫ وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ بھی ساتھ کہے، اور اگر پہلے والا کہے، کہ اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،، تو جواب دینے والے کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اچھے الفاظ یعنی ٫٫ وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ ؛؛ تو اتنا جو ہے وہ سنت میں آیا ہے، تو آس لئے اللہ نے فرمایا کہ جب سلام کیا جائے تمھیں تو اسکا اچھے الفاظ میں جواب دو، کیونکہ کہ سلام کا۔جواب دینا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پرحق ہے،اور اب حق سے مراد یہ ہے کہ جب ایک مسلمان جا رہا ہے اور جس کو سلام کرنے یعنی پہل کرنے کا حق ہے اور وہ سلام نہ کرے تو پھر قیامت کے دن اس سلام یعنی اس حق کا اللہ تم سے پوچھے گا، تو اس لئے کہا گیا ہے کہ جب سلام کیا جائے تو تم اس کا اچھے الفاظ میں جواب دو،

اور مفسرین نے اچھے الفاظ کا ایک معنیٰ یہ بتایا ہے، کہ بے شک سلام کے جواب میں اچھے الفاظ یعنی ٫٫ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ؛؛ نہ ہو لیکن سلام کا جواب خندہ پیشانی سے دو، یہ اس کا اچھا جواب ہے اللہ نے فرمایا، مطلب سلام کا جواب ایسے نہیں دینا چاہئے کہ سلام کرنے والا اپنے سلام پہ پشیمان نہ ہو کہ شائد مجھے سلام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ 

یہاں تک امام ترمذی شریف نے اس حدیث کی روایت کی ہے سرکارِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے معاشرے میں سلام کو عام کرو آپ نے فرمایا تم جس کو جانتے ہو اس کو سلام کرو اور جس کو نہیں بھی جانتے اس کو بھی سلام کرو، کیونکہ جب ایک انسان کسی اجنبی شخص کو سلام کرتا ہے تو اس اجنبی شخص کے دل سے اجنبیت کا خوف ختم ہو جاتا ہے، تو وہ پھر اگلے سے خطرہ محسوس نہیں کرتا۔

یہاں تک صحابہ کرام کے متعلق آتا ہے سیرت کی کتابوں میں کہ صحابہ کرام سلام کا اتنا احتمام کرتے کہ وہ چند سیکنڈ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہوتے اور پھر ملتے تو پھر بھی وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے، اسی لئے ہمارے شعریت میں سلام کے متعلق حکم ہے، کہ جو چل رہے ہوں تو وہ بیٹھے ہوئے کسی ایک شخص یا زیادہ بیٹھے ہوئے جماعت کو سلام کرے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی جواب دے تو وہ باقی ماندہ تمام کی جانب سے سلام کا جواب مل جاتا ہے،اور اگر پورے مجموعے میں کسی نے بھی جواب نہیں دیا تو پھر سب گناہگار ہونگے، اسی طرح ایک شخص سواری پہ ہے اور ایک پیدل چلنے والا ہے تو یہ پیدل چلنے والے کا حق ہے کہ سوار جو شخص ہے وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے، ایسی طرح ایک انسان مسجد مدرسے یہ گھر میں عبادت میں مشغول ہے اور ایک دوسرا شخص باہر سے آتا ہے تو باہر والے کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں وہ سلام نہ کرے، اور اگر مسجد میں بعض اوقات لوگ ویسے بیٹھے ہوئے ہیں تو ان کو پھر ضرور سلام کریں، ایسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ایک شخص تلاوت کر رہا ہے اور کوئی شخص باہر سے آیا اور اس نے سلام کیا تو تلاوت کرنے والے کو سلام کا جواب دینا لازمی نہیں ہے وہ جواب نہ دے اگر دے دیا تو ٹھیک ہے مگر نہ دینے پہ گنہگار نہیں ہوتا، ایسی طرح ایک شخص کھانا کھا رہا ہے اسے بھی سلام نہیں کرنا چاہیے جب وہ کھانے سے فارغ تب اس کو سلام کیا جائے، تو انسان جب سلام کرتا ہے تو اس سلام کی بدولت معاشرے میں امن پیدا ہوتا ہے، 

اسی لئے اسلامی معاشرے میں سلام اتنی اہم ہے کے جب تم قبرستان جاؤ تو مردوں کو بھی سلام کیا کرو سلام کی اتنی بڑی اہمیت ہے کہ زندوں کو تو دور کی بات کہ مردوں کو بھی سلام کرنے کا حکم ہے، جب بھی قبرستان جاؤ یا راستے میں قبرستان آئے تو کہو ٫٫اسلام علیکم یا اھل القبور؛ بے شک دل میں کہو لیکن سلام ضرور دو، سلام کرنے کا فائدہ اتنا ہی ہے جتنا ایک مسلمان اپنے مردوں کے لئے دعا کرتا ہے، اب مردوں کے لئے سلام کا فائدہ یہ ہے کہ ، شائد ان پہ قبر کا عزاب، شائد وہ قبر کے عزاب میں مبتلا ہوں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ مردوں کو بھی سلام کیا کرو، سرکارِ دوعالم ﷺ کا سنت اور طریقہ یہی تھا، امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ سرکارِ دوعالم ﷺ راستے میں بچوں کو بھی سلام کیا کرتے تھے، اور سرکارِ دوعالم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک شخص اگر چاہے کہ اس کے رزق میں اور بھی برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے گھر والوں کو سلام کرے، تو سلام اتنا اہم ہے کہ اگر گھر میں کوئی بھی نہ ہو تو درود شریف ہی پڑھ لیا جائے تو بھی بہتر ہے تو اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پہ 6 حقوق ہیں ان 6 حقوق میں سے پہلا حق وہ سلام کرنا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرے، اسی میں ہماری کامیابی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

@ImTaimurKhan

Leave a reply