باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کل وزیر اعظم عمران خان کی پبلک کالز پر تقریر سن کر ایک شعر میرے ذہن میں آیا۔
آپ کے لیے بھی ارشاد فرما دیتا ہون۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا،
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مجھے عمران خان کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ ان کے درباریوں نے انہیں انتہائی خود فریبی کا شکار کر دیا ہے۔ قوم سے وہ ایسے بات کرتے ہیں جیسے بادشاہ حضور احسان فرما رہے ہوں۔
جب کبھی برا وقت آتا ہے یا ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے وہ آگے سے احسان جتانا شروع کر دیتے ہیں۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اب کوئی ہے کہ جو ان سے پوچھے کہ آپ سیاست میں کیوں تشریف لائے، آپ نے جھوٹے وعدے کیوں کیے، آپ حالات سے اتنے نا علم تھے کہ اب کہتے ہیں میں کچھ اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، عوام اور ادارے میرا ساتھ دیں۔ عوام کیا ڈنڈے لے کر سڑکوں پر آجائے، آپ کو ووٹ دے دیا، ملک کا وزیر اعظم بنوا دیا۔ سارے گورنر، وزیر اعلی، وزیر ،مشیر، اداروں کے سربراہ آپ کی مرضی کے لگ گئے۔
کس کس کو اٹھاکر لگا دیا ہے اور انہیں وسیم اکرم پلس کا خطاب دے دیا ہے۔انسان کو کیا چاہیے ہوتا ہے، طاقت وہ آپ نے حاصل کر لی۔ پھر پیسا اس کی آپ کو ضروت نہیں کیونکہ جب ATMکارڈ جیب میں ہو تو پیسہ جیب میں نہیں رکھا جاتا آج کل ویسے بھی ڈیجیٹل دور ہے۔کیوں آپ نے چن چن کر اپنی پارٹی کی ATM کواعلی عہدوں پر بیٹھایا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے آپ کی خدمت کر کے اعلی سرکاری عہدے حاصل کیے اور پھر انہوں نے ملک کو بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ملک کس کے فیصلوں کی وجہ سے برباد ہوا ہے۔ عوام کا بیڑا غرق ہوا ہوا ہے اور آپ فرما رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔آپ سے کس نے کہا تھا کہ حضرت عمر کی مثالیں دے دے کر لوگوں کو بے وقوف بنائیں ، کیوں آپ نے اپنا ہوم ورک اقتدار میں آنے سے پہلے ختم نہیں کیا۔ اقتدار مین آکر بھی ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں اور آپ کو کچھ نہیں پتا کہ کیا کرنا ہے۔ کیوں سارے فصلی بٹیرے اپنی کابینہ میں شامل کیے، کیوں اقتدار کی خاطر کمپرومائز کیا کس نے آپ کی منتین کی تھی۔ قوم پر قرضہ ڈبل کر کے، آئی ایم ایف کا غلام بنا کر، لوگون کو بے روز گار کر کے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس سب کچھ تھا، مجھے کیا ضرورت ہے دو ٹکے کے لوگوں کی باتیں سننے کی۔آپ کے پرانے ساتھی آپ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، آپ کے نظریاتی ساتھی آپ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔
آپ کے پاس سب کچھ تھا تو یہاں قوم کا وقت خراب کرنے کیوں آئے، آپ کو اپنے جھوٹے دعوے اور جھوٹے وعدوں پر جواب دینا ہو گا، آپ کی حکومت اور وزیروں مشروں کے جو ساڑھے تین سال میں اربوں روپے لگے ہیں اس کا جواب دینا ہو گا،روزانہ جو آپ ہیلی کاپٹروں کی سیریں کر رہے ہیں اس کا بھی جواب دینا ہو گا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ عمران خان فرماتے ہیں کہ اگر میں حکومت سے باہر نکل گیاتو زیادہ خطرناک ہوں گا‘ابھی تک تو میں چپ ہوں اور تماشے دیکھ رہاہوں ۔اگرسڑکوں پر نکل آیاتو آپ کیلئے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی ۔پینتیس سالوں میں سب نے ملکر جو ملک کے ساتھ کیا ہے لوگ آپ کو پہچان چکے ہیں ۔آپ سمجھ جائیں جو لاوا نیچے پک رہاہے ۔لوگوں کو صرف آپ کی طرف دکھانا ہے ۔پھر کوئی لندن بھاگ رہاہوگا ۔پہلے بھی لوگ بھاگے ہوئے ہیں ۔باقی بھی ادھر جارہے ہوں گے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ وہ دھمکی ہے جو سمجھا جا رہا ہے کہ عمران خان نے اپنی مان مانی کرنے سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی دی ہے، انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن واقفان حال جان گئے ہیں کہ پس منظر میں کیا چل رہا ہے، میں نے ایک ویڈیو کی تھی وہ تیر جو عمران خان کے لیے شہتیر بن سکتا ہے اس میں معاملات کھل کے بیان کیے تھے کہ عمران خان اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اہم تعیناتی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس دھمکی پر سلیم صافی کا کہنا ہے کہمیں بھی آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ آپ جن کو دھمکی دے رہے ہیں ،اب وہ آپ کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں۔۔آپ نے ابھی تک صرف ان کی لاڈ دیکھی ہے، مار نہیں۔۔۔اگر آپ کے خلاف پہلے وعدہ معاف گواہ اسد عمراور زلفی بخاری نہ بنے تو میرا نام شبلی فراز رکھ لیں۔دھمکیوں پر مریم نواز کا کہنا ہے کہ آپ کی دھمکیاں کہ اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہو جاؤں گا گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ جس دن آپ اقتدار سے نکلے عوام شکرانے کے نفل پڑھیں گے۔ نا آپ نواز شریف ہیں جس کے پیچھے عوام کھڑی تھی نا ہی آپ بیچارے اور مظلوم ہیں۔ آپ سازشی ہیں اور مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں۔ مشرف زیدی اس پر ٹویٹ کرتے ہیں کہلوگوں میں انتشاری کیفیت پیدا کرکے کرسی پر سوار رہنا؟ کیا یہ ہے، ان کی سوچ میں انصاف پھیلانا؟ یہ کس طرح کی گفتگو ہے ؟ یہ کیا پاکستای عوام کو دھمکی دے رہے ہیں، یا ان کو جنہوں نے ان کا چناؤ کیا تھا؟ افسوس۔
اس کے بعد وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ پرویز مشرف نے دوخاندانوں کو این آراو دیکر ظلم کیا‘قوم جانتی ہے اپوزیشن کا وقت ختم ہوچکا ہے شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر نہیں قوم کا مجرم سمجھتا ہوں اس نے 8 ارب روپے کے گھپلوں کا نیب کو جواب دینا ہے۔ عدلیہ سے اپیل ہے کہ وہ ملک پر رحم کرے اور روزانہ کی بنیاد پران کے کیس کی سماعت کرے‘پی ٹی ایم اور ٹی ایل پی سمیت سب سے بات کرنے کو تیار ہوںمگر چوروں سے نہیں‘ ملک لوٹنے والوں سے مفاہمت اور سمجھوتہ ملک اورقوم سے غداری ہوگی۔اب آپ ان کے ٹون پر غور کریں اور ان کی باتوں پر۔ یہ سانحہ اے پی ایس کے مجرموں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ لوگ جن کو جیل میں ڈالنا ان کا اپنا مفاد ہے کیونکہ وہ اقتدار ان کے ہاتھ سے چھین سکتے ہیں۔ ان کے سیاسی رقیب ہیں۔ جن کو باہر بھیجنے کے لیے ان کی حکومت کے اپنے بورڈ نے لکھ کر دیا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔کیا چیف جسٹس اس بات کا نوٹس لیں گے کہ ملک کا وزیر اعظم عدالت کو کہہ رہا ہے کہ مل پر رحم کریں، جیسے عدالتیں دانستہ طور پر ملک کو تباہ کر رہی ہوں۔ اب اس ملک کے وزیر اعظم کو ترجیحات بھی بتانی پڑیں گی کہ چوری جو کہ ثابت نہیں ہوئی وہ قتل سے بڑا جرم نہیں ہو سکتی۔ جوش خطابت میں بولنے سے پہلے تھورا سوچ لیا کریں۔آج کل وزیر اعظم صاحب کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا، میڈیا جب تک گن کا رہا تھا سب ٹھیک تھا، میڈیا کی جے جے ہو رہی تھی لیکن جیسے ہی میڈیا نے آئینہ دیکھانے کی کوشش کی تو برا مان گئے۔ خان صاحب فرماتے ہیں۔میڈیا ہم پر تنقید ضرور کرے مگر پروپیگنڈہ نہیں ۔جان بوجھ کرفیک نیوز کے ذریعے مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔اگر اتنے ہی برے حالات تھے تو ملک کو دیوالیہ ہوجانا چاہیے تھا اور بیروزگاری بڑھنی چاہیے تھی۔میں اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔عوام اور اداروں کو ساتھ دیناہوگا۔ عدالتیں آزادہیں ۔ان کی بھی ذمہ داری ہے ۔ جیلوں میں کوئی طاقتورڈاکونہیں۔وہاں قید چھوٹے لوگوں کو بھی چھوڑدینا چاہئے۔کس نے چھوڑا چور ڈاکوں کو۔ کون ہے جو آپ کے خلاف پراپیگنڈا کر رہا ہے،۔ آپ تو سچ بولتے تھے۔ مجبوری میں اقتدار سے چپکنے والے نہیں تھے۔ آپ کیوں بلیک میل ہو رہے ہیں کون ہے جسے آپ سڑکون پر آکر مزہ چھکا سکتے ہیں۔ کون آپ کو اپنی من مانی کرنے سے روک رہا ہے۔چلو یہ تو عمران خان نے مانا کہ وہ زبردستی اقتدار سے چپکے ہوئے ہیں اور ان کا بس نہیں چل رہا، جب انہیں اقتدار سے گھسیٹ کے نکالا جائے گا تب ہی وہ لوگون کو حقیقت بتائیں گے اور حقیقت بھی وہ جسے وہ حقیقت سمجھتے ہیں۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ خان صاحب آپ فرماتے ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی میں پورے کروں گا، کون سا تیر آپ نے مارا ہے جو آپ دوبارہ آجائیں گے، اتنے اعتماد سے کہنے کا مطلب ہے جو کھیل آپ نے دو ہزار اٹھارا میں رچایا کیا اسی کی تیاری دوبارہ کی جا رہی ہے۔؟وہ کون سا کارنامہ ہے جو آپ کو نہ صرف دوبارہ منتخب کروائے گا بلکہ دس سال آپ کو اس قوم پر نازل بھی کرے گا۔آپ نے قوم کو اپنے سیاسی مخالفین کی کرپشن اور احتساب کا ڈھنڈورا پیٹ کربے وقف بنایا، اور اپنے اقتدار میں بھی احتساب نہ کر سکے۔ لیکن بس اب نہیں، ہم مزید بے وقوف نہیں بن سکتے۔سارے مافیا اپنے ارد گرد اکھٹے کر کے ہمیں مافیا پر بھاشن مت دیں۔کرپشن بڑھ گئی ہے، غربت بڑھ گئی ہے، بھوک بڑھ گئی ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ہمارا وزیر اعظم تو ایماندار ہے جس کے اردگرد سارے مافیا اکھٹے ہیں۔آپ خان صاھب کی باتیں سنییں۔۔ بندہ سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے یہاں طاقتور کیلئے ایک اور غریب کیلئے دوسرا قانون ہے، قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ہے۔اس وقت جیلوں میں کوئی طاقتور ڈاکو نہیں۔بدعنوان لوگوں کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ساڑھے تین سال سے آپ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور باتیں ایسے کر رہے ہیں جیسے کوئی مطلق العنان، کرپٹ اور ظالم شخص اس ملک پر حکومت کر رہا ہے، خان صاحب آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔ کنٹینر سے اتر آئیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جاتے جاتے آپ کو یہ خبر دے دوں کہ بارش کا پہلا قطرہ گر چکا ہے ابھی موسلا دھار بارش کا انتظار ہے۔ ملک میں احتساب کے علمبردار اور کرپشن کے سب سے بڑے دشمن، جنہوں نے ملک میں احتساب کو مذاق بنا دیا ۔۔ نے استعفی دے دیا ہے۔ جی ہاں آپ سمجھ چکے ہوں گے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ٹویٹر پر استعفی دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ
I have tendered my resignation today to PM as Advisor. I sincerely hope the process of accountability continues under leadership of PM IK as per PTI’s manifesto. I will remain associated with party n keep contributing as member of legal fraternity.
چلیں اب پریس پریس کانفرنسوں کا بوجھ تو میڈیا سے کم ہو گا۔