عمران خان کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ بس حکومت ملنی چاہیے، چاہے جیسے بھی ملے

0
24

پاکستان کی سیاست ایک ایسے ڈھول جیسی ہوچکی ہے جسے جتنا پیٹیں اتنی ہی بلند آواز۔ ہر بیٹ پر نیا ساز، نیا ردھم، تماشائی ہیں کہ جھوم رہے ہیں، ناچ ناچ کے بے حال ہیں، بجانے والے خوب بجا رہے ہیں، کبھی آہستہ تو کبھی تیز بیٹ۔ سیلاب کی شدت بھی اس کی آواز کو کم نہیں کرسکی۔ متاثرین کی آہ و زاری، بچوں کی چیخیں، خواتین کے بین، بزرگوں کے نوحے بھی ان کے آگے مدہم پڑگئے ہیں۔ سرکار کے لہجے میں تلخی آئی ہے تو سب کو ’’خوف‘‘ میں رکھنے والا کہتا ہے ’’میں مزید خطرناک ہوگیا ہوں‘‘۔ آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟

جو 26 سال سے سیاست کررہا ہے، اس کی سیاست میں کوئی درمیانی راستہ نہیں۔ اس کے نزدیک وہ حکومت میں ہے تو سب اچھا ہے، وگرنہ سب برا۔ چوری پکڑی جائے تو اس کے نزدیک ہیرے بھی سستے ہیں، سونا بھی بے معنی ہے۔ فارن ہو یا ممنوعہ فنڈنگ سب حلال ہے۔ اس کا ایک ہی ایجنڈا ہے بس حکومت ملنی چاہیے، چاہے جیسے بھی ملے۔

عمران خان کی تحریک کو دیکھیں تو ان کی کسی جگہ انگیجمنٹ ہوتی ہے پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ جب یہ ٹوٹتی ہے تو ان کے بیانات میں سختی آجاتی ہے۔ ان کے گرد قانونی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، کوشش یہی ہے کہ ان کو کسی طریقے سے نااہل کروایا جائے۔ دونوں طرف سے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ حکومت مقدمات کے ذریعے دباؤ بڑھا رہی ہے تو عمران خان جلسوں کے ذریعے دباؤ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر عمران خان کی زندگی کو دیکھا جائے تو جب بھی ان پر پریشر پڑا انہوں نے اچھا پرفارم کیا ہے۔ الیکشن کے اعلان سے پہلے بات کرنے کو تیار نہیں لیکن پارٹی کی بنیاد پر بات چیت ہورہی ہے۔

ایکپریس کے ایک مضمون کے مطابق: حکومت کی صبح عمران خان سے شروع ہوتی ہے اور شام عمران خان پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بولنے کو کچھ نہیں۔ مریم نواز خاموش ہیں، ان کی سیاست تب چمکے گی جب عمران خان کو منظرعام سے ہٹادیا جائے۔

عمران خان اور اپوزیشن کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات ہوں لیکن حکومت اس وقت انتخابات کا رسک نہیں لے سکتی۔ مجبوری میں تو کروائے گی۔ جن خامیوں کا تذکرہ عمران خان کی حکومت میں کیا جاتا ہے وہ سب خامیاں اس حکومت میں نظر آتی ہیں۔ دوسری وجہ عمران خان کی مقبولیت ہے، جس کی وجہ سے حکومت الیکشن کروانے کا رسک نہیں لے سکتی۔ حکومت چاہتی ہے مدت پوری کرے یا اس سے آگے تاریخ لے جائے۔ عمران خان حکومت اور اداروں دونوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کو فارغ کرنے کی جو باتیں کی جارہی ہیں اس کو ختم کرنے کےلیے دباؤ ہے۔ عمران خان کا خطرناک ہونے کا پیغام ایک تو حکومت کےلیے ہے، دوسرا اداروں کےلیے، تیسرا اپنی جماعت کےلیے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جتنا جارحانہ بیانیہ ہوگا اتنا ہی عوام میں مقبول ہوگا۔ یہ عوام تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔

Leave a reply