عمران خان اپنے لیے گڑھے کھود رہے ہیں ۔۔۔

0
26
گرفتاری کا خوف، عمران خان نے ایک اور درخواست ضمانت دائر کر دی

وہ لوگ جو یہ قسم کھاتے ہیں کہ پاکستان میں عمران خان جیسا سیاسی لیڈر کبھی نہیں آیا اور سب کو یقین دلاتے ہیں ہیں کہ وہ ملک کے تمام سیاستدانوں سے بہتر ہیں عمران خان کے پاس سب کچھ تھا اس کے پاس سٹریٹ پاور اور پورے ملک میں بہت زیادہ مقبول جسے منظم طریقے سے پالا گیا تھا اور بہترین لیڈر اور انتہائی محب وطن رہنما کے طور پر ایک نیا پاکستان بنانے کے ‘وژن’ کے ساتھ پیش کیا جو بدعنوانی غیر اخلاقی اور پرانی مرکزی دھارے کی جماعتوں جیسے کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پرانی وراثتی جماعتوں سے الگ نظریے کے طور پر پیش کیا گیا

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو استعمال میں لاتے ہوئے اسے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا پھر پاکستان کے متوسط طبقے نے پزیرائی دی خیال یہ تھا کہ ایک ‘ہائبرڈ رجیم’ کو تیار کیا جائے جس کے سامنے ایک خوبصورت اور مشہور شخصیت ہو۔ لیکن حکومت بڑی حد تک ان لوگوں کے ذریعے چلائی گئی جنہوں نے اس کے غیر قابل ذکر سیاسی کیریئر کو تقویت بخشی۔

سابق وزیر اعظم ان تمام چیزوں کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے جب وہ اقتدار میں تھے۔ اور اس نے اپنی مقبولیت کے نشے میں سب کے ساتھ برا برتاؤ پیش کیا اور اپنے قریبی ساتھیوں سے دور ہوتا گیا یہ وہی ساتھی تھے جنہوں اقتدار تک پہنچایا تھا اوران کی پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لیے جوڑ توڑ کیا تھا پھر اقتدار میں آکر اپنے مخالفین کو ہراساں کیا ور اُن کو تشد کا نشانہ بنایا گیا۔ جہانگیر ترین علیم خان سمیت کئی عمران خان کے قریبی ساتھی اس سے دور ہوئے عمران خان نے حکومت بنانے والوں سے بھی انتقام لیا حکومت مین رہتے ہوئے علیم خان کو جیل بھجوایا گیا جہانگیر ترین پر مقدمات بنائے گئےپھر کیا ہوا۔۔ ،چاہے اس کی حکومت کتنی ہی نااہل کیوں نہ ہو۔ اس کے باوجود خان پھر بھی تبدیلی نہ لاسکے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اتنے خوش فہم تھے کہ میری راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ہی ساتھیوں کو اپنے سے دور کرنا شروع کردیا

پھر آخر کار انہیں اپریل 2022 میں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیاعدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پھر انہوں نے دوبارہ مقبول ہونے کےلیے ملک بھر میں تحریک چلائی جسے وہ اقتدار میں آنے کے بعد کھوچکے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے پھر ایسا رویہ اپنایا جو کسی صورت قابل قبول نہیں مقبولیت کو دیکھتے ہویے عمران خان نے ہر وہ غلط کام فیصلہ کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا

2023 کے وسط میں ہونے والے اگلے انتخابات کے لیے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے اب تک کسی صبر کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اس کے بجائے وہ اپنے سابقہ ​​مجسمہ سازوں کے خلاف محاذ آرائی کرنی شروع کردی اور اپنی کشتیاں جلانے میں مصروف ہے۔ ایک سیاست دان سے بڑھ کر وہ ایک مجنوں عاشق کی طرح برتاؤ کر رہا ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جنہوں نے اسے بنایاتھا بالآخر اسے پھینک دیا ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں

جو لوگ خان کو پسند کرتے ہیں وہ انہیں ایک عظیم لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ وہی ہے جسے آنجہانی امریکی اسکالر آرنلڈ بیچ مین نے ’اینٹی لیڈر‘ کہا تھا۔ بیچ مین نے ایک مخالف رہنما کو ایک مقبول اور کرشماتی سیاست دان کے طور پر بیان کیا لیکن ایک "جو اپنے آپ کو مسخر کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے پورے معاشرے کی تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے

بیچ مین کے نزدیک،مخالف لیڈر کی قسم وہ جس نے حکومت کی ہو اوروہ ہار گیا ہو ہار وہ نایاب فرد ہے جو اب بھی عظیم یادوں کو جنم دے سکتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اب ایک غیر یقینی صور کی آواز لگاتا ہے جو ایک آدھے دل والے اور پیشگی الزام کو متحرک کرتا ہے۔ خود کو تباہ کرنے کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے وہ عوامی جگہوں پر اپنے ذاتی ڈراؤنے خوابوں میں رہتا ہے جیتتے وقت وہ اپنی ہار کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
بیچ مین پھر مزید کہتا ہے کہ مخالف لیڈر کو اپنی روزمرہ کی تباہی کا مظاہرہ کرنے کے لیے لائم لائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مخالف لیڈر کے طور پر اس کی زندگی ماورائے ادارہ بن جاتی ہے، جبکہ وہ ادارے کے اندر رہنے پر اصرار کرتا ہے۔ پھر بھی، اس کی رائے اخلاقی ہے، اس کی نظر میں؛ اس کے اعمال اخلاقی ہیں؛ اس کے الفاظ اخلاقی ہیں؛ اس کی زندگی اخلاقی ہے۔
مدر جونز کے لیے اگست 2020 کے ایک مضمون میں، سیاسی صحافی ڈیوڈ کارن نے – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کی خود ساختہ نوعیت کی کھوج کرتے ہوئے لکھا کہ خود غرضی خود کو تباہ کرنے والی سیاست کی طرف لے جاتی ہے۔ خود کو تباہ کرنے والے لیڈر (یا مخالف لیڈر) کو بغض اور خود نمائی سے بھڑکایا جاتا ہے۔ وہ مستقبل میں جھانکنے اپنے بیانات اور اعمال کے اثرات پر غور کرنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔

خان کی سیاست خاص طور پر جب وہ وزیر اعظم تھے اور ان کی برطرفی کے بعد کے مہینوں کے دوران بیچ مین کے مخالف لیڈر کی خصوصیات سے میل کھاتی ہے۔ ایک سٹار کرکٹر اور ایک سابق ’پلے بوائے‘ کے طور پر ان کا طرز عمل اس طرح کا تھا کہ کس طرح ایک مشہور کھلاڑی اور ایک سیاست دان کا اکثر تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی سیاست نے مزید غیر روایتی موڑ لیا۔ وہ سیاست کرنا ہے جو فلموں اور ناولوں میں اینٹی ہیرو ہوتے ہیں۔ وہ مرد جو آثار قدیمہ کے ہیرو نہیں ہیں بلکہ کرشماتی شخصیت ہیں جن کی خامیاں اور متضاد مزاج ان کے کرشمے کا ذریعہ ہیں۔

وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک جال بن جاتا ہے۔ جب ایک سیاست دان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ اس کے غیر روایتی اور غیر موافق طرز عمل ہیں جو سب سے زیادہ خوش ہوتے ہیں، تو امکان ہے کہ وہ ان کو مستحکم کرتا رہے گا۔ وہ سیاست کے اپنے باہری طبقے کی افسانوی داستانوں کے نقطہ نظر تک عقیدہ پرست اور خود غرض بن جاتا ہے۔

جہاں مرکزی دھارے کی سیاست میں لچک اور عملیت کی ضرورت ہوتی ہے وہیں مخالف لیڈر مخالف سمت میں جاتا ہے۔ خان جو کچھ عرصہ پہلے تک اس قسم کے سیاسی خلفشار سے بچنے کا انتظام کر رہے تھے جس نے دوسرے لیڈروں کو ریاست کے ساتھ مشکلات میں ڈال دیا تھا اور ناقابل تسخیر ہونے کا احساس پیدا کر چکے تھے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس احساس کو ریاستی اداروں نے آہستہ آہستہ چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے، خان اس بات کو تسلیم کرنے میں سب سے زیادہ ناکام دکھائی دیئے

یہاں تک کہ جب اس کی بے دخلی یقینی بن رہی تھی،وہ انکار کررہا تھا۔ وہ مسلسل یہ کہتا رہا کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے ہر وقت اس کے مخالفین اسے آہستہ آہستہ کاٹ رہے تھے. سمجھوتوں اور گفت و شنید کے ذریعے اپنی پوزیشن کو بچانے کے لیے مرکزی دھارے کی سیاست کھیلنے کے بجائے وہ انکار میں ڈوب گئے

ڈان میں ندیم فاروق پراچہ کہ شائع ایک تحریر کے مطابق یہ بہادری نہیں ہےبلکہ ایک اینٹی ہیروک کرنسی ہے۔ یہ خود غرض انفرادیت کی ایک قسم ہے جو کشش اور جوش پیدا کر سکتی ہے، لیکن خود تباہ کن ہے۔ اور یہ احساس آخر کار اس پر رینگ رہا ہے وہ نہ صرف اپنے آپ کو مزید تباہ کر رہا ہے، بلکہ ایسا کرتے ہوئےپورے معاشرے کی تباہی کی کوشش کر رہا ہے

Leave a reply