عمران خان کی ضد، پاکستان کا احمد شاہ رنگیلا بن کر ہی رہوں گا

0
35

عمران خان کی ضد، پاکستان کا احمد شاہ رنگیلا بن کر ہی رہوں گا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے بات کی جائے تو وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم تو تردید کرتے ہیں کہ جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے آرڈیننس کاکوئی مسودہ تیار نہیں کیا۔۔ پر سماء ٹی وی دعوی کر رہا ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ہو چکاہے ۔ جس کی منظوری منگل کے روز ہونے والے کابینہ اجلاس میں دیئے جانے کا امکان ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد مسودے کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پاس بھیجا جائے اور ان کی منظوری کے بعد اس کا نفاذہو جائے گا۔ لگتا بھی یوں ہی ہے کہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا مل بیٹھنا موجودہ حالات میں تو دور دور تک نہیں دیکھائی دے رہا ہے ۔ بیٹھ بھی جائیں تو نہیں لگتا کہ کسی ایک نام پر ان دونوں کو کم ازکم اتفاق ہوگا ۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان بضد ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں قانون جو بھی ہو ۔ وہ شہباز شریف کو گھاس نہیں ڈالیں گے ۔ یوں یہ معاملہ بھی کھٹائی میں دیکھائی دیتا ہے ۔ اور صرف ایکسٹینشن ہی آپشن باقی بچتی ہے ۔ پر ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض حکومتی شخصیات میں مدت میں توسیع کے دورانیے سے متعلق اختلاف تھا جسے دور کرنے کیلئے مسودے میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ جب تک نئے چیئرمین کی تقرری نہیں ہوگی تب تک موجودہ چیئرمین ہی عہدے پر کام جاری رکھیں گے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پر ایسا تھوڑی ہے کہ اپوزیشن حکومتی پلاننگ سے بالکل ہی بے خبر ہو ۔ انھوں نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع ہونے کی صورت میں عدالت جائیں گے ۔ یوں آنے والے دنوں میں چیئرمین نیب کی تقرری والا معاملہ میڈیا اور عوام کا اچھا خاصا entertain کرنے والا ہے ۔ پھر سائیں بزدار سرکار کی بات جائے تو اب عمران خاں بھی مان چکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں مقابلہ پنجاب میں سخت ہوگا۔ ویسے میں تو اس کو وسیم اکرام پلس کی سخت بری کارکردگی سے تعبیر کرتا ہوں ۔ کیونکہ جتنی تبدیلیاں ان تین سالوں میں پنجاب میں ہوئی ہیں اتنی تبدیلیاں شاید گزشتہ ستر سالوں میں پنجاب میں نہیں ہوئی ہیں ۔ ابھی آج کی سن لیں کہ ایک دفعہ پھر پنجاب حکومت نے سیکرٹریز سمیت اعلی عہدے کے چودہ افسران کے تقرر تبادلے کردئیے ہیں۔ میں تو یہ ہی دعا کروں گا کہ اللہ کرے یہ نئی ٹیم مطلوبہ نتائج دے دے ورنہ ابھی اس حکومت کے دوسال باقی ہیں پتہ نہیں پنجاب کا یہ کیا حال کریں گے ۔ اگر آپکو یاد ہو تو یہی پنجاب تھا جس نے تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں مرکز اور پنجاب کی حکمرانی دلائی تھی اور اب یہی پنجاب ہے جس میں تحریک انصاف کو انتخابی دنگلوں میں چاروں شانے چت گرنا پڑا ہے۔ دراصل یہ عثمان بزدار کی حکومت کی کارکردگی پر طمانچہ ہے جو عوام نے رسید کر دیا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ ہی وجہ ہے کہ الیکڑانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کی اجازت دینے کے معاملات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر غبار کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اگلے انتخابات کو ہر صورت میں“ فتح“ کرنا سب سے بڑا مشن ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان صرف مالی مشکلات کا شکار ہی نہیں۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر بھی مسائل ہی مسائل ہیں۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود حکومت کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ اگلے عام انتخابات کو کیسے اڑانا ہے۔ ۔ آپ دیکھیں چیف جسٹس کی سرابرہی میں سپریم کورٹ کا فل بنچ کب کا بلدیاتی ادارے بحال کرچکا ہے۔ ادھر حکومت اسے ماننے سے صاف انکاری ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حالانکہ یہ ہی حکومت عوام کو نچلی سطح تک حقوق مہیا کرنے کی سب سے بڑی داعی تھی ۔ پھر عمران خان نے عوام کو یہ خبر تو دیدی ہے اگلے دو سال بھی مشکل ہیں تاہم ساتھ یہ نہیں کہا آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ عمران خان کی باتوں سے لگتا ہے ابھی اچھے دن نہیں آئے اور نہ ہی اگلے دو برسوں میں آنے والے ہیں عوام کا تو اب ایک ایک دن مشکل سے گزر رہا ہے۔ اس پر اگر کپتان نے یہ خبر بھی سنا دی ہے اگلے دو برس بھی مشکل ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے عوام پر کیا گزری ہو گی۔ لیکن وزیر اعظم کے وزیر و ترجمان ان کی اس بات کو بھی گوٹہ کناری اور سرخی پاوڈر لگا کے بیان کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دیکھو ملک کا وزیر اعظم کتنا سچا ہے جو حقیقت ہے بیان کر دیتا ہے۔ویسے ایسا سچا اور کھرا وزیراعظم پہلے کبھی عوام نے دیکھا ہی نہیں جو مشکل حالات کی خبر بھی ایسے دیتا ہے جیسے خوشخبری سنا رہا ہو۔ پانچ سال کے لئے حکومت منتخب ہوئی ہے، اس کے پانچوں برس اگر مشکلات میں گزر جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ عوام کو اپنی آئینی مدت کے دوران کوئی ریلیف نہیں دے سکتی تو ایسی حکومت کو کامیاب کہا جائے گا یا ناکام۔ فیصلہ آپ خود کر لیں ۔ ویسے کپتان نے تو ہار نہیں مانی ان کی حکومت تو چل رہی ہے اور اب چوتھے برس میں داخل ہو گئی ہے تاہم عوام اب ہار گئے ہیں، ان کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔ انہیں زندگی کی دوڑ برقرار رکھنے کے لئے جان کے لالے پڑ گئے ہیں وہ ایک امید کے سہارے زندہ تھے کہ حکومت اپنی باقی ماندہ دو سال کی مدت کے دوران ریلیف نہیں دیتی تو کم از کم مہنگائی کو موجودہ سطح پر ہی منجمد کر دے گی، مگر کپتان نے اگلے دو برسوں میں بھی مشکلات کی گھنٹی بجا کر انہیں مایوس کر دیا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی چیز نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی ہے ہر چیز اوپر ہی اوپر جائے جا رہی ہے ۔ ڈالر ہو ، پیڑول ہو ، بجلی ہو ، گیس ہو ، آٹا ہو ، چینی ہو ، حکومتی دعوے ہوں یا پھر عوام ہوں ۔ کیونکہ ان حالات میں زندہ رہنا کسی جہاد سے کم نہیں ۔ کیونکہ جس حساب سے موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات مان رہی ہے۔ بہتری دیوانے کا خواب ہے ۔ ڈالر آج پھر بلندیوں پر پہنچ چکا ہے ۔ آپ دیکھیں پچھلے تین ماہ میں ڈالر کواپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کے لیے حکومت تقریباً ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز مارکیٹ میں ڈال چکی ہے۔ تحریک انصاف سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی ناقد رہی ہے لیکن موجودہ حکومت اب خود بھی اسی طریقہ کار سے نظام چلاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف وزیر اور مشیر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بھرمار ہے جس سے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ سرکار کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کا سارا زور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹے سچے اعدادوشمار پیش کرنے پر ہے۔ وزرا جب عوام اور میڈیا کو قائل نہیں کر پاتے تو انہیں کنفیوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ آج کل کئی وزرا یہ دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمت برطانیہ اور یورپ کی نسبت بلکہ پورے خطے میں سب سے کم ہے۔ برطانیہ میں ایک لیٹر پٹرول ایک پاؤنڈ تیس پینس کا ہے جو پاکستانی روپوں میں تقریباً تین سو روپے بنتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 123 روپے 80 پیسے فی لیٹر میں پٹرول دستیاب ہے۔ ایسے افراد سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ برطانیہ میں ایک گھنٹہ کام کرنے کی کم سے کم اجرت تقریباً سات پاؤنڈ ہے۔ اگر دن میں آٹھ گھنٹے کام کیا جائے تو 56 پاؤنڈز کمائے جا سکتے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 12936 روپے بنتے ہیں۔ اس سے تقریباً 43 لیٹر پٹرول خریدا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن کی کم از کم اجرت تقریباً چھ سو روپے ہے جس سے ساڑھے چار لیٹر پٹرول ہی خریدا جا سکتا ہے۔اس طرح یہ مانگے تانگے کے وفاقی وزیر سوشل میڈیا پر تشہیری مہم تو چلا سکتے ہیں ۔ لیکن انفارمیشن کے اس دور میں عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پر کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ عمران خان ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ آئندہ انتخابات اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔ اب کوئی اندازہ لگانے لگے کہ وہ کس کارکردگی کی بات کر رہے ہیں تو سرپکڑ کر بیٹھ جائے۔ کیا مشکلات برقرار رکھنے کی کارکردگی، کیا مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے کی کارکردگی، یا پھر گڈ گورننس میں عروج حاصل کرنے کی کارکردگی، کون سی کارکردگی ؟؟؟ کہاں کی کارکردگی ؟؟؟ کہنے کو عمران خان اپنے خوشنما نعرے نیا پاکستان کی وجہ سے اقتدار میں آ گئے، مگر وہ اشرافیہ کے چنگل سے آزاد ہو سکے اور نہ عوام کو آزاد کرا سکے، ان کی حکومت میں پرانے پاکستان کے وہ تمام استحصالی چہرے موجود ہیں، جو اس ملک کے عوام کو روپ بدل بدل کر بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ۔ اسی لیے ان چہروں نے جلد ہی عمران خان کے نئے پاکستان کی ہیئت بدل کر پرانے سے بھی زیادہ استحصالی پاکستان بنا دیا۔ یوں ایک بار پھر وہ نظریہ جیت گیا جو عوام دشمنی پر مبنی ہے اور وہ ہار گیا جو عوام دوستی کا مظہر ہے۔ اقتدار میں چاہے مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلزپارٹی یا پھر ان دونوں کو ہرا کر تحریک انصاف حکومت بنا لے عوام کے ہاتھوں میں کچھ نہیں آتا۔ ان کے لئے محرومیوں کے سوا اس سارے نظام میں کچھ بھی نہیں، بلکہ حالات پہلے سے بدتر ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کے ہر غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ آج کل پھر سیاسی جماعتیں عوام کے دکھ درد بانٹنے کے درد میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی کہہ رہی ہے ایک موقع اور دیں، پھر دیکھیں ہماری عوام دوستی اور پیپلزپارٹی بھی عوام کو نئے خواب دکھانے کی پوری کوشش کر رہی ہے، جبکہ عوام دریا کے کنارے کھڑے یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔

Leave a reply