عمران خان نے کیسے ہتھیار ڈالے؟ سعودی عرب سے پاکستان کو کیا کچھ ملا؟ اہم انکشافات

0
52

عمران خان نے کیسے ہتھیار ڈالے؟ سعودی عرب سے پاکستان کو کیا کچھ ملا؟ اہم انکشافات
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آج کی اس ویڈیو میں جہاں ہم آپ کو یہ بتائیں گے کہ پاکستان کو سعودی عرب سے کیا ملا اور کیا ملنے والا ہے وہیں ہم آپ کو بتائیں گے کہ عمران خان نے سعودی عرب سے تعلقات کیسے خراب کیئے، کیا عمران خان نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، ایران، ترکی پاکستان کا بلاک بنانے کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ امت مسلمہ کا نیا اور پرانا لیڈر سعودی عرب ہی ہے اور رہے گا، بلکہ مستقبل میں ہم اپنے فیصلے سعودی عرب کی مشاورت سے کریں گے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کے بہت چرچے ہیں، ہر کوئی قیاس آرائیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے، کرونا کے بعد کی نئی دنیا اور سپر پاورز کے بدلتے توازن کے درمیان کیا نئے معاہدے کیئے ہیں۔پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان اور سودی عرب نے اپنے تعلقات کو ایک جھٹکے کے بعد ری سیٹ کیا ہے جس کے لیئے پاکستان کے دفاعی حلقوں نے بہت محنت کی ہے آرمی چیف کا مسلسل تمام مراحل میں موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ جس طرح فوج سی پیک کی ضامن ہے اسی طرح سعودی عرب سے کی گئیCommitments کی ضامن بھی فوج ہی ہو گی۔ایک بیان انتہائی اہم ہے جو آرمی چیف سے محمد بن سلمان کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔ وہ ہے امت مسلمہ کی رہنمائی کون کرے گا۔۔ پہلے ہم نے سناتھا کہ نیا بلاک بنے گا اور امت مسلمہ کی سربراہی سعودی عرب کے علاقہ کوئی اور ملک کرے گا لیکن اگر ہم اس بیان پر نظر ڈالیں تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔Both nations will continue to play their part for betterment of Ummah۔یعنی پاکستان نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ امت مسلمہ کی سربراہی کا حق سعودی عرب کو حاصل ہے اور عمران خان جو ترکی، ملائشیا اور ایران کے ساتھ نیا بلا ک بنانے جا رہے تھے جس میں امت مسلمہ کی لیڈر شپ کسی اور نے کرنے تھی وہ سب پلان ٹھپ ہو چکا ہے۔ اور سعودی عرب اور پاکستان مل کر امت مسلمہ کی بھلائی، امن اور بہتری کے لیئے کام کرتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ جب بھی دورہ سعودی عرب ہوتا ہے اس میں پوری قوم بشمول میڈیا اس چیز پر نظر ہوتی ہے کہ پاکستان کو کیا ملا۔۔تو پاکستان کو سب سے پہلے جو چیز ملی ہے وہ ہے تسلی۔۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات بحال ہو چکے، اور دونوں برادر ممالک مل کر کام کریں گے جو اختلافات کی ٹینشن تھی وہ دور ہو چکی ہے، نقدی میں فوری طور پر 500ملین ڈالر یعنی 75 ارب روپےسعودی ڈیویلپمنٹ فنڈ سے ملیں گے جو کہ پاکستان ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر سکتا ہے۔ محمد بن سلمان نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کو اس کے Vision 2030 منصوبے کے لیئے اگلے دس سال میں تقریبا دس ملین ورکر، ماہر اور انجینئر سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاکستانیوں کو مناسب حق دینے کی درخواست دی گئی تھی ، جس پر پاکستان کویقین دلوایا گیا ہے کہ اسے ایک کروڑ نوکریوں میں ایک بٖڑا حصہ دیا جائے گا۔۔اس کے علاوہ کہا یہ جا رہا ہے کہ سعودی ولی عہد عید کے بعد پاکستان کا دورہ کریں گے، جس میں بڑے اعلانات متوقع ہوں گے۔Saudi-Pakistan Supreme Coordination Councilکا قیام کر دیا گیا ہے جو دونوں ممالک کے درمیاں تاخیر کا شکار منصوبوں کے علاہ۔ سیاسی، سیکیورٹی، معاشی، کلچرل اور سوشل معاملات پر آپس میںCoordinate کریں گے۔ جس کی صدارت وزیر اعظم اور کراون پرنس کریں گے۔اور اسے تین پلر کی شکل میں آرگنائز کیا جائے گا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ایک پلر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ لیڈ کریں گے جس میں پولیٹیکل اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات دیکھیں گے اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اس کونسل کے Focal point ہوں گے۔دونوں ممالک کے درمیان بہت سے ایگریمنٹس پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالے سے سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل کو بریفنگ دی، انہیں ہیومن رائٹ کے حوالے سے آگاہ کیا اور پر امن حل پر زور دیا۔ ہم آپ کو اپنی گزشتہ ویڈیوز میں بتا چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات میں سعودی عرب اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جبکہ افغانستان میں امن مزاکرات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔مسلئہ فلسطین پر بھی بات ہوئی۔۔ ان سب چیزوں سے یہ لگتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب مستقبل میں چاہے افغانستان ہو یا کشمیر یا پھر اسرائیل سے تعلقات۔۔ ان معاملوں میں مل کر فیصلہ کریں گے۔۔۔ اور ہمیں مستقبل قریب میں بڑی بڑی تبد یلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب نے تمام شعبوں میں مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب پر واضح کر چکا ہے کہ اب اسے اپنی حفاظت خود کرنا ہو گی، اس لیئے سعودی عرب کے پاس اپنے تحفظ کے لیئے پاکستان کے بہتر آپشن نہیں ہو سکتا جو مکہ اور مدینہ کے تحفط کو اپنی دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب کو اس کی سالمیت، اور اس کی territorial integrity سمیت دو مقدس مقامات کے تحفظ کا یقین دلوایا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کئی دہائیوں سے ایک باریک لائن پر چل رہے ہیں۔سعودی عرب اب چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو تیل کی آمدن سے نکال کر ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنائے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اب سعودی عرب کو اس کی ضرورت کے مطابق تعلقات کو صرف سیکیورٹی اور ثقافتی روابط تک محدود رکھنے کی بجائے اسے تمام شعبہ زندگی تک پھیلایا جائے۔

سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مالی مدد کی ہے اور پاکستان نے اس کے بدلے سعودی عرب کے دفاع کی ذمہ داری لی ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو گزشتہ ساٹھ سالوں میں پاکستان نے کبھی سعودی عرب کی مدد یا قرضہ واپس نہیں کیا ہے۔ لیکن جس طرح اس دور حکومت میں بہت سے کام پہلی دفعہ ہوئے ہیں تو یہ کام بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب نے پیسے واپس مانگ لیئے۔سعودی عرب کو یہ بات اچھی طرح پتا ہے کہ اگر کبھی اس کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا سب سے قابل بھروسہ ساتھی ہو گا۔ اس ایک وجہ نے بھی دونوں ممالک کی دوستی کو قائم رکھا ہوا ہے۔اگر ان دونوں ممالک کےتعلقات میں سے دفاع نکال دیا جائے تو سعودی عرب کے پاس تو پاکستان کو دینے کو بہت کچھ ہے پیسے نوکریاں اور دیگر چیزیں۔۔ لیکن پاکستان کے پاس شائد دینے کو کچھ نہ بچے۔۔یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے یمن کے معاملے پر سعودی عرب کو فوج نہ دینے کا فیصلہ کیا تو تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے دشمن بھارت سے تعقات بہتر کرنا شروع کر دیئے۔ پاکستان کے مذہنی طبقوں، پاکستان کی فوج اور پاکستان کے سیاستدانوں کے لیئے سعودی عرب بہت اہمیت کا حامل ہے سعودی عرب کی ناراضگی پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ سعودی عرب کے پاکستان میںStakes بڑھائے جائیں، سعودی انویسٹرز کو معاشی موقع فراہم کیئے جائیں۔اور سعودی عرب کی اپنی معیشت کو بلکل تیل کے انحصار سے نکالنے کی کوشش میں اس کے ساتھی بن جائیں۔ پاکستان نے اگر اپنے تمام کارڈز ٹھیک کھیلے تو امید کی جا رہی ہے کہ اس دورے سے تمام معاملات سیدھے ہو جائیں گے۔پاکستان یہ کوششیں دو ہزار اٹھارہ سے کر رہا ہے، پہلے جنرل راحیل شریف کی صورت میں یمنی باغیوں کے خلاف تیار مہاذ میں پاکستان کا جھنڈا شامل کیا گیا۔ ٹریننگ اور مشاورت کے لیئے فوجی بھیجے گئے۔ جو optics کے لئے اچھے تھے۔ پھر شائد خاقان عباسی کے دور میں اسی کوشش کو آگے بڑھانے کے لیئے کہ سعودی پاک تعلقات کا انحصار صرف دفاع پر نہ ہو ۔۔ ایکeconomic اور cultural packageپر بات کی گئی جو سوشل اور اکناملکexchange programکا حصہ تھا۔ سعودی عرب میں تعمیراتی منصوبوں میں پاکستانی افرادی قوت کے لئے کوٹہ بڑھا۔ اور دوبارہ ترسیل شدہ مائع قدرتی گیس پلانٹس ، آئل ریفائنری اور متبادل توانائی کے لئےسعودی سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا۔اس کے بعد جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم بنے تو تعلقات کو مزید قریب کرنے کے لیئے ایک کوشش کی گئی، اور بہت زیادہ لابنگ کی گئی کہ سعودی بادشاہ سلمان سے عمران خان کی ملاقات ہو جائے۔ملاقات تو ہو گئی لیکن سابق سفیر اس حوالے سے کہتے ہیں کہIK arrived in Riyadh clueless and unprepared about maintaining foreign relations.یعنی عمران خان کو کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے پاکستان کے کیا تعلقات ہیں اور عمران خان کی تیاری ہی نہ تھی۔ جس کی وجہ سے یہ موقع ضائع ہو گیا۔

 

ایک مہینے کے بعد ، اس موقع پر جب امریکہ ، برطانیہ اور فرانس سمیت متعدد ممالک نے صحافی جمال خاشوگی کے قتل پر محمد بن سلمان کے "صحرا میں ڈیووس” کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن پاکستان کی وہاں موجودگی نے اسے چھ بلین ڈالر کا پیکج دلوا دیا۔ اور فروری دوہزار انیس میں محمد بن سلمان معاشی و اقتصادی پیکج پر دستخط کرنے اسلام آباد پہنچے۔ تاکہ سعودی پاک تعلقات کی ایک شاندار تصویر دنیا کو دیکھائی جا سکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی لیڈر شپ کے لیئے سعودی عرب کے غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور اس کی وجہ تھی ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی دل کی باتیں کرنے کی عادت۔ اور انہیں اپنے دل اور دماغ کی باتیں کرنے کی بہت جلدی تھی۔ جبکہ ممالک کے تعلقات میں دل کی باتوں کو دل میں ہی رکھا جاتا ہے۔October 2018 summitپر جانے سے پہلے عمران خان نے جمال خشوگی کے قتل پر کنسرن شو کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ Pakistan is desperate for a Saudi loan۔اس کے بعد عمران خان نےPublicly ایران اور سعودی عرب میں صلح کروانے کی پیش کش کر دی۔ جو لوگ سعودیوں کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سعودی سب سے زیادہ جس چیز سے نفرت کرتے ہیں وہ ہےMediation۔اور دوسرا پاکستان کے پاس ایران پر ایسی کوئیLeverageنہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ اس طرح کی آفر کر دی۔۔عمران خان نے اپنے دماغی خیالات کو اس طرحفارن ریلیشن میں استعمال کیا۔ اور اس کے کھلے عام اظہار بھی کیا تاکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان نیوٹرل ہونے کا تاثر دے سکیں جس پر سعودی عرب نے اس کا شدید رد عمل دیا اور تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ پاکستان سعودی عرب اور اس کے دشمن کےدرمیان نیوٹرل ہو کر سعودی عرب سے مدد کیسے لے سکتا ہے ۔

عالمی برادری فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے فوری اقدام اٹھائے،وزیراعلیٰ پنجاب

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم، پاکستان میدان میں آ گیا، کیا اعلان کر دیا؟

فلسطینی مسلمانوں پراسرائیلی مظالم ،ترکی میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر احتجاج

فلسطین کی اسلامی مزاحتمی تنظیم حماس نے مانگی ایران سے حمایت

جب مظلوم فلسطینی بیٹیوں کی گردنوں پر اِسرائیلی بَربریت کا گھٹنا سانسں لینےمیں رکاوٹ بن رہا تھا..جمیل فاروقی برس پڑے

ان تصاویر کو دیکھ کر خودبخود جنت کی یاد آجاتی ہے،مریم نواز کی ٹویٹ پر صارف کا تبصرہ

فلسطین پر حملے،ترکی نے اسرائیل کے خلاف کونسا قدم اٹھا لیا؟

اسرائیل کی بربریت جاری، شہادتیں 36 ہو گئیں،ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے

ان سب کے باوجود ، سعودیوں نے کبھی بھی عوامی سطح پر پاکستان کو پامال نہیں کیا ، بلکہ نجی طور پر اپنی ناراضگی پاکستانی فوجی قیادت تک پہنچائی ۔اس سب کے درمیاں عمران خان نے کوالمپور میں بھی کانفرنس اٹینڈ کرنے کا پلان بنا لیا جو سعودی عرب کے حریف، ترکی، ایران اور ملائشیا کروا رہے تھے۔ پھر جو دھمکی سعودی عرب کی طرف سے آئی وہ بھی طیب اردگان کو بتا دی گئی۔۔ جس کو اس نے سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیئے خوب استعمال کیا۔اس کے بعد سونے پر سہاگہ کا کام شاہ محمود قریشی کے اس بیان نے کیا جو انہوں نے کشمیر کے معاملے میں نیا بلاک بنانے کی دھمکی دے کر کیا۔ جس کا جواب سعودی عرب نے تین ارب ڈالر کے soft loanکی واپسی اور تین بلین ڈالر کی ادھار تیل اور گیس کی سہولتRenewنہ کر کے دیا۔ پھر بند کمرے میں کس طرح تین میں سے ایک بلین اور ادھار تیل کی سہولیات بحال کروائی گئی یہ انہی کو پتا ہے جو اس کمرے میں بند تھے۔تاریخ میں پہلی بار ، مملکت نے پاکستان سے اپنا پیسہ واپس طلب کیا۔ پاکستان کا سعودی عرب سے ٹریڈ والیم تین ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے جبکہ سعودی عرب اور بھارت آپس میں سالانہ$33 billionکی تجارت کرتے ہیں۔پاکستان کو اگر دیکھا جائے تو ہر خلیجی ملک سے پاکستان کے تعلقات دفاعی ڈپلومیسی Defense related ہیں جسے پاکستان نے ہر شعبے میں بڑھانے کا نہ صرف فیصلہ بلکے عملی اقدام بھی شروع کر دیا ہے۔عمران خان اپنے دیگر تمام خیالات کی طرح سعودی عرب کے حوالے سے خیالات کو معاشی بدحالی کی وجہ سے بدلنے پر مجبور ہیں۔پاکستان اب پہلے کی طرح سعودی عرب کی ہر ہان میں ہاں ملائے گا اور خطے کی سیاست سمیت ہر میدان میں مل کر چلے گا۔یہ ہے وہ نتیجہ جو پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات بحال ہونے کے بعد ہم سب کے سامنے آیا ہے اور اب امید کی جا رہی ہے کہ سعودی ولی عہد جب عید کے بعد پاکستان آئیں گے تو پاکستان کو کافی کچھ دے کر جائیں گے۔

Leave a reply