بھارت، جو خود کو "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” کہنے پر فخر کرتا ہے، وہاں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے اب نہ صرف ملکی سطح پر مخالف آوازوں کو دبانا شروع کر دیا ہے بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی روکنے کی مہم تیز کر دی ہے۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق بھارت میں کئی غیر ملکی میڈیا اداروں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان میں چین کے سرکاری میڈیا ادارے گلوبل ٹائمز اور شینہوا نیوز ایجنسی کے ساتھ ساتھ ترکی کے مشہور ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ شامل ہیں۔ ان اداروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اکثر بھارت کے حساس موضوعات پر تنقیدی اور تحقیقی صحافت پیش کرتے ہیں ، وہی صحافت جو مودی حکومت کو گوارا نہیں،بھارت میں قومی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اب حکومت کی ترجمانی کا کردار ادا کر رہا ہے، جسے عوام میں ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ میڈیا ادارے وہی دکھاتے ہیں جو حکومت چاہتی ہے، اور جو آوازیں حکومت سے سوال کرتی ہیں، انہیں یا تو غدار کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے یا پھر مکمل طور پر بین کر دیا جاتا ہے۔
صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور تحقیقی رپورٹرز کو یا تو گرفتار کیا جاتا ہے یا ان کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ بہت سے غیر ملکی صحافیوں کو ویزا تک نہیں دیا جاتا، یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ایک حقیقی جمہوریت وہ ہوتی ہے جہاں ہر آواز کو سنا جائے، ہر سوال کا جواب دیا جائے اور اختلاف رائے کو عزت دی جائے۔ لیکن مودی کا بھارت ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں جمہوریت تب تک ہے جب تک آپ سرکار کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ تنقید کرو، تو آپ ملک دشمن، قوم کے غدار، یا سیکیورٹی رسک قرار دیے جاتے ہیں۔
یہ "میڈیا فائر وال” محض سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بند کرنے تک محدود نہیں، بلکہ ایک وسیع منصوبہ ہے جس کے تحت نریٹیو کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ دنیا کو جو بھارت دکھایا جا رہا ہے، وہ صرف پردے کا ایک رخ ہے ، پردے کے پیچھے سچائی کہیں چھپی، کہیں جلی، کہیں دبائی جا رہی ہے۔