بھارت یہ ناں سمجھے کہ کرونا کی وجہ سے کشمیری اپنے موقف پرکمزورہوگئے ہیں،کشمیرہماراہے،سارے کا سارا ہے ،الطاف حسین

0
31

اسلام آباد: انٹرنیشنل کشمیر لابی گروپ نےایک آن لائن سیمینارکا اہتمام کیا جس میں کشمیری ماہرین رائے لی گئی کہ وہ اس امکان کا جائزہ لیں کہ کورونا کی وبا کے دوران عالمی توجہ کشمیرکی صورتحال سے دور نا ہو جائے۔ یہ ایک مخمصہ ہے جس کا سامنا بہت سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور پالیسی ساز افراد کو درپیش ہے۔ اس ویبنار میں دنیا کے ایک ایسے خطے پر توجہ مرکوز کی گئی جو کہ جدید تاریخ کا طویل ترین لاک ڈاؤن بھگت رہا ہے، جہاں اسی لاکھ سے زائد افراد آزادانہ طور پر نقل و حرکت اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی کارکنوں ، صحافیوں، اور کشمیری، پاکستانی اور او آئی سی سمیت دوسرے بڑے ممالک کے سفارت کاروں نے گذشتہ چند مہینوں سے مسئلہ کشمیر پر عالمی توجہ حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کی ہے۔ تاہم اس ضمن میں اب کچھ تشویش پائی جارہی ہے کہ عالمی وبا کشمیر پر بین الاقوامی دلچسپی کو متاثر کر سکتی ہے۔ کشمیر ایک طویل عرصے سے عالمی راڈار سے دور تھا لیکن 2016 کے بعد دوبارہ عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آیا۔ اقوام متحدہ نے 2018 اور 2019 میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو جامع رپورٹیں جاری کیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت متعدد پارلیمانوں نے حالیہ عرصے میں کشمیر کی صورتحال پر سماعتیں کیں۔ بین الاقوامی میڈیا کی بدولت مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم اور سیاسی بحران کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی بے مثال ہے۔

تاہم کشمیر پر اس ساری عالمی توجہ کو کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ کشمیری کارکن اور پالیسی ماہرین نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے 5 اگست 2019 کے بعد کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کورونا وائرس کے دوران اور اس کے بعد کی دنیا کو مسئلہ کشمیر پر آگاہ رکھنے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

آن لائن سیمینار کا عنوان تھا، "مسئلہ کشمیر کا کورونا وائرس اور دیگر مسائل سے پس پردہ جانے کا خدشہ: کیا پالیسی اختیار کرنی چاہئے”۔ جبکہ سیمینار کے شرکاء میں کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی، نمل یونیورسٹی کے شعبہ گورننس اینڈ پبلک پالیسی کے سربراہ ڈاکٹر وقاص علی کوثر، یونیورسٹی آف کوٹلی سے پروفیسر شگفتہ اشرف، کل جماعتی حریت کانفرنس سے ایڈووکیٹ پرویز شاہ اور وائی ایف کے انٹرنیشنل کشمیر لابی گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر احمد قریشی شامل تھے۔

اس بحث کے دوران ایک اہم نکتہ ڈاکٹر وقاص علی کوثر کی طرف سے سامنے آیا جس نے اس خیال کو مسترد کیا کہ موجودہ وبائی صورتحال کشمیر کو عالمی توجہ سے دور کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تنازعہ کشمیر نے گذشتہ سات دہائیوں کے دوران متعدد عروج اور زوال دیکھے ہیں اور اس سارے عرصے میں خطے میں موجود قابض بھارتی انتظامیہ اور فوج تحریک آزادی کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ ڈاکٹر وقاص نے کہا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی مستحکم ہے اور اس لئے وبائی مرض پر عالمی توجہ کشمیر کو پس منظر میں نہیں جانے دے گی۔

الطاف حسین وانی، جو کہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور ماہر ہیں، کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے مستقل نمائندے خلیل ہاشمی نے 9 اپریل 2020 کو ایک ویڈیو کانفونس کے دوران اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ کے سامنے اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے کی نسبت کورونا وبا کے دوران اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ الطاف وانی کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات اور کوریج اس بات کی تصدیق ہیں کہ وبائی مرض کے باوجود عالمی سطح پر نیوز کوریج میں کشمیر کو ایک طرف ہٹانا ممکن نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ پرویز شاہ نے شرکاء اور دیگر آن لائن سامعین کو کشمیر کے لاک ڈاون اور مواصلاتی پابندیوں سے متعلق مقبوضہ خطے کے اندر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔

وائی ​​ایف کے، کے نمائندے احمد قریشی نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور پالیسی ساز ماہرین کے مابین اس بحث و مباحثے کی ضرورت پر زور دیا کہ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے معاملات پر عالمی مباحثہ اور توجہ کو کشمیر سے کیسے جوڑا جائے۔ کشمیر کا خطہ لاک ڈاؤن کے زیر اثر رہا ہے اور لاکھوں افراد تاحال انٹرنیٹ اور دیگر رابطے کے سافٹ وئیر استعمال کرنے سے محروم ہیں۔ احمد قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اس سے معمول کی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ جس کے باعث مقبوضہ کشمیر میں نا صرف نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

پروفیسر شگفتہ اشرف نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر جوز سنگر کا بھارتی اخبار دی ہندو کو انٹرویو، جس میں انہوں نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیر پر اپنے سخت رویوں میں نرمی لائیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ کورونا کے وبائی مرض کے باوجود عالمی توجہ کشمیر پر مرکوز ہے۔ پروفیسر شگفتہ نے مسئلہ کشمیر کو قومی اور عالمی سطح پر اجاگر رکھنے کے لیے کشمیر پر کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں اور حکومت پاکستان کے لئے متعدد تجاویز بھی پیش کیں۔

وائے ایف کے – انٹرنیشنل کشمیر لابی گروپ(یوتھ فورم فار کشمیر)، ایک غیر جانبداربین الاقوامی این جی او ہے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کیلئے کوشاں ہے۔

Leave a reply