خلائی ایجادات؛ بھارت بمقابلہ پاکستان

0
37
Sparco

خلائی ایجادات؛ بھارت بمقابلہ پاکستان

بھارت نے 2008 میں چاند کی طرف اپنا پہلا مشن روانہ کیا لیکن یہ پہلا مشن چندریان ون چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام ہوگیا تھا لیکن اس دوران خلائی مشن نے اپنے ریڈارز کے ذریعے سے چاند کی سطح پر سب سے پہلے پانی کی موجودگی کو دریافت کر لیا تھا۔ بھارت نے چاند کی طرف روانہ کیے جانے والے اپنے دوسرے مشن کے ذریعے سے چاند کے جنوبی قطب پر اترنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کر رکھی تھی۔

ایک انگریزی جریدے کے مطابق چاند کے اس انتہائی دور اور تاریک حصے پر اترنے کی منصوبہ بندی اس سے پہلے کوئی اور ملک نہیں کر سکا تھا اس مشن کے لئے بھارت نے اپنے پاس موجود ملکی ساختہ سب سے بھاری اور طاقتور راکٹ جی ایس ایل وی مارک تھری استعمال کیا تھا جبکہ اس کا وزن 640 ٹن تھا اور اس کی لمبائی 44 میٹر تھی جو کہ کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔ اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 3792 کلو تھا اور اس کے تین واضح مختلف حصے تھے، جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ ‘آربیٹر’، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ ‘لینڈر’ اور سطح پر گھومنے والا حصہ ‘روور’ شامل تھے۔

علاوہ ازیں مدار میں گردش کرنے والا حصہ ایک سال تک خلا میں زیرگردش رہ کر وہاں کی تصاویر لیتا۔ سطح چاند پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ‘وکرم’ رکھا گیا تھا۔ اس کا وزن نصف تھا اور اس کے اندر 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی’ پراگیان تھی جس پر ایسے آلات نصب کیئے گئے تھے کہ جو چاند کی سرزمین کی جانچ پڑتال کر سکیں اور وہاں پر موجود پانی کے بارے ٹھوس معلومات جمع کر سکیں۔ جبکہ اس کی زندگی 14 دن کی تھی۔ اور یہ لینڈر سے نصف کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرنے کی اہلیت رکھتا تھا.

جریدے میں لکھا گیا ہے کہ جہاں سے وہ زمین پر تصاویر اور اعدادوشمار تجزیے کے لیے روانہ کرتا۔ بدقسمتی سے بھارتی خلائی گاڑی وکرم چاند کی سطح سے محض 1۔2 کلومیٹر پہلے بے قابو ہو گئی اور 172 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چاند کی سطح سے جا ٹکرائی۔ اور یوں بنی نوع انسان کی چاند کے قطب جنوبی پر اترنے کی پہلی کوشش بظاہر ناکام ہو گئی تھی.

باغی ٹی وی کی ریسرچ کے مطابق پوری دنیا کی نظریں اس مشن پر تھیں کیونکہ اس طرح کی کسی بھی سائنسی کوشش کو عام طور پر پوری دنیا کی مشترکہ سائنسی کاوش گردانا جاتا ہے. بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے (INCOSPAR) کا قیام 1962 میں عمل میں آیا تھا، جس کو 1969 میں انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کا مختصر نام دے دیا گیا۔ اس کے بانی اور پہلے سربراہ خلائی سائنسدان وکرم سارا بھائی تھے جبکہ اس کا ہیڈکوارٹر بھارتی شہر بنگلور میں واقع ہے ۔اس وقت اس خلائی تحقیقاتی ادارے کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب ڈالرز ہے ،اور اس میں 16800 سے زیادہ سائنسدان کام کر رہے ہیں۔

ایک بھارتی ادارے کے مطابق اسرو نے 19 اپریل 1975 کو اپنا پہلا مصنوعی سیارہ ‘آریہ بھاٹیا’سوویت یونین کی مدد سے خلا میں پہنچایا۔1980 میں بھارتی ساختہ پہلےخلائی راکٹ(SLV3)کے ذریعے سے’روہنی’نامی مصنوعی سیارے کو کامیابی سے خلائی مدار میں چھوڑا گیا۔اس کے بعد بھارت نے مقامی طور پر دو خلائی راکٹ ڈیویلپ کیے،جن میں سے ایک(PSLV) پولر مدار کے لئے اور دوسرا (GSLV)جیو سٹیشنری مدار تک مصنوعی سیارے پہنچانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ ان کے ذریعے سے ‘گگن’ اور (IRNSS) جیسے متعدد مواصلاتی سیارے اور نیوی گیشن سسٹم کامیابی سے خلا میں پہنچائے گئے۔2014 میں اسرو نے ہندوستانی ساختہ (GSLV.D5) راکٹ کی مدد سےاپنے مواصلاتی سیارے GSAT 14 کو کامیابی سے خلا میں چھوڑا۔

22 اکتوبر2008 کو بھارت کا پہلا خلائی مشن چندریان ون چاند کے مدار میں بھیجا گیا۔اور 5 نومبر 2015 کو مریخ کی طرف پہلا بھارتی خلائی مشن روانہ ہوا،جو کہ24 ستمبر 2014 کو مریخ کے مدار میں پہلی ہی کوشش میں کامیابی سے داخل ہونے والا دنیا کا پہلا خلائی مشن بن گیا۔18 جون 2016 کو انڈیا نے ایک ہی راکٹ کے ذریعے سے 20 مصنوعی سیارے اکٹھے خلا میں بھیج دیے،اور 15 فروری کو اپنے ہی تیار کردہ طاقتور خلائی جہاز(PSLV_C37) کے ذریعے ایک ہی فلائٹ میں 104 مصنوعی سیارے خلا میں کامیابی سے بھیج کر اب تک کا نہ ٹوٹنے والا عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔

اسرو نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا،بلکہ5 جون 2017 کو اپنے جدید ترین خلائی راکٹ (GSLV_MK3) کے ذریعے سے 4 ٹن وزنی مواصلاتی سیارے GSAT19 کو خلائی مدار میں بھیج کر امریکہ اور روس کے ساتھ خلا میں سب سے وزنی سیارے بھیجنے والے ممالک میں اپنی جگہ بنا لی۔ اسرو کا حالیہ مشن چندریان ٹو تھا،جس میں اسے جزوی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

یاد رہے کہ بھارت کی مستقبل کی منصوبہ بندی میں مکمل ہندوستانی خلائی اسٹیشن کی تعمیر، مصنوعی سیارے چھوڑنے والا،انتہائی چھوٹا کم خرچ خلائی جہاز ،انسان بردار خلائی مشن،بار بار استعمال ہو سکنے والا خلائی راکٹ اور شمسی توانائی سے چلنے والا خلائی جہاز شامل ہیں۔ جبکہ ان کامیابیوں کے دوران کئی بار بھارتی سائنسدانوں کو ناکامیوں کا منہ بھی سامنا کرنا پڑا تھا.

پاکستان کے خلائی تحقیقاتی ادارے سپارکو (SUPARCO) کا قیام بھارت سے ایک سال پہلے 1961 میں عمل وجود میں آیا تھا ایک انگریزی جریدے کے مطابق انڈیا کے اسرو کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ کے مقابلے میں سپارکو کا بجٹ محض چار کروڑ اور تیس ڈالرز رکھا گیا ہے سپارکو کا پورا نام ‘اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن ‘ ہے جو کہ افواج پاکستان کے اسٹریٹیجک پلاننگ ڈویژن کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا جبکہ شروع میں اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں تھا جسے پاکستان ائیر فورس کے ماتحت کر دیا گیا اور اب اس کا مرکز آرمی ڈسٹرکٹ چکلالہ میں ہے۔

واضح رہے کہ قیام کے ابتدائی برسوں میں اس کی ترقی کی رفتار شاندار تھی۔1962 میں اس نے مقامی ساختہ پہلے سالڈ فیول کے حامل بغیر انسان بردار راکٹ ‘رہبر’ کی کامیاب اڑان بھری ،اور اسطرح پاکستان ایشیا کا تیسرا اور دنیا کا دسواں ایسا ملک بن گیا جس نے خلائی راکٹ کا کامیاب تجربہ حاصل کیا تھا جبکہ اس وقت کے خلائی پروگرام میں پاکستانیوں کو امریکہ کی بھی تکنیکی معاونت میسر تھی۔1967 تک پاکستان خلائی ٹیکنالوجی میں کامیاب پرواز کرنے کی اہلیت رکھنے والا جنوبی ایشیا کا واحد ملک تھا۔ اور یہ خلائی تجربات 1970 تک جاری رہے.
مزید یہ بھی پڑھیں؛
پاکستان کو بہتر معاشی پوزیشن پر دیکھنا چاہتے. امریکہ
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا اقتدار چھوڑنے کا اعلان
بلوچستان میں زلزلہ کے جھٹکے
پاکستان کو درپیش چیلنج سے نکال کر اپنے پاﺅں پر کھڑا کریں گے۔ وزیر اعظم
قیادت کرنے سے ہی آتی ہے کوئی نیچرل یا پیدائشی کپتان نہیں ہوتا. وسیم اکرم
عدالت نے معروف قانون دان لطیف آفریدی کے قتل کے ملزم کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا
مس ایل سلواڈور کی مقابلہ حسن میں بٹ کوائن والے لباس میں شرکت
حافظ نعیم الرحمٰن الیکشن کمیشن پر الزامات نہ لگائیں،صوبائی الیکشن کمشنر
الیکشن کمیشن نے (ق) لیگ کو معاملہ جلد دیکھنے کی یقین دہانی کرادی
عوام نے نام نہاد مقبول لیڈرز کا پول کھول دیا ہے. بلاول بھٹو زرداری
جبکہ سونمیانی کے خلائی اسٹیشن سے 200 کے قریب ایسے راکٹ چھوڑے گئے۔ تاہم بعدازاں بدقسمتی سے کئی طرح کی مالی،انتظامی اور سیاسی مشکلات کے علاوہ سائنسی بجٹ کا زیادہ حصہ جوہری صلاحیت کے حصول کی طرف لگانے کی وجہ سے خلائی تحقیق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تاہم 1991 میں پاکستان نے چینی تعاون سے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ چینی راکٹ کے ذریعے سے خلا میں بھیجا تھا۔ لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے خلائی تحقیق کو فضول گردان کر کئی ترقیاتی منصوبے منسوخ کردیے۔ اور سپارکو کے سائنسدانوں کو میزائل سازی کے منصوبوں میں مصروف کر دیا گیا جبکہ آج سپارکو کے نام سے شاید اسکولوں کے بچے بھی واقف نہ ہوں۔ علاوہ ازیں کئی سال بعد چین کی مدد سے دو مصنوعی سیارے فضا میں بھیجے گئے تھے۔ جبکہ سپارکو کی تحقیق کا محور اب نظام شمسی کا مشاہدہ،خلائی موسم،آسٹرو فزکس،خلائی مشاہدات،ماحولیاتی تحقیق،سپیس اینڈ ٹیلی میڈیسن،ریموٹ سینسنگ،زمین کا مشاہدہ اور رویت ہلال تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اور یوں اب تک پاکستان اس خلائی ایجادات میں عدم دلچسپی کے سبب مزید کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا ہے جو انتہائی افسوس ناک بات ہے.

Leave a reply