پاکستانی فضائی حدود کی بندش نے بھارتی ائیر لائنز کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر ایندھن کی مد میں۔ پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کے باعث بھارتی طیاروں کو اضافی وقت کے لیے پروازیں جاری رکھنی پڑ رہی ہیں، جس سے ایندھن کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی ائیر لائنز کو یومیہ تقریباً 21 کروڑ پاکستانی روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اگر یہ پابندیاں جاری رہیں تو ان کے اخراجات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
ماہرین کے مطابق، ایک بوئنگ 777 طیارہ ایک گھنٹے میں 6668 کلوگرام ایندھن استعمال کرتا ہے، جبکہ ائیر بس اے 319، 320 یا 321 طیارہ اوسطاً 2400 کلوگرام ایندھن استعمال کرتا ہے۔ جیٹ ایندھن کی قیمت فی کلوگرام تقریباً 82 ڈالر ہے، اور بھارت میں 6668 کلوگرام ایندھن کی قیمت تقریباً 5467 ڈالر بنتی ہے۔اگر ایک بوئنگ 777 یا 787 طیارہ 100 گھنٹے اضافی سفر کرتا ہے تو اسے صرف ایندھن کی مد میں 5 لاکھ 46 ہزار 776 ڈالر کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، اگر ائیر بس اے 319، 320 یا 321 طیارہ 100 گھنٹے اضافی پرواز کرتا ہے تو اس کے لیے ایک لاکھ 96 ہزار ڈالر اضافی ایندھن کی قیمت کا بوجھ ہوتا ہے۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے بھارتی ائیر لائنز کو روزانہ دو گھنٹے اضافی سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر 100 بوئنگ 777 اور 100 ائیر بس طیارے روزانہ دو گھنٹے اضافی سفر کرتے ہیں تو انہیں 7 لاکھ 42 ہزار 776 ڈالر اضافی ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ائیر انڈیا اور دیگر بھارتی ائیر لائنز کو روزانہ 6 کروڑ 35 لاکھ روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 21 کروڑ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ، اگر یہ پابندیاں طویل عرصے تک برقرار رہتی ہیں تو بھارتی ائیر لائنز کو طویل دورانیے کی پروازوں کے دوران ایندھن بھرنے یا اسٹاف کی تبدیلی کے لیے کسی دوسرے ملک کے ائیرپورٹ پر اسٹاپ اوور بھی کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں اضافی اخراجات مزید بڑھ جائیں گے، کیونکہ بین الاقوامی فضائی راستوں پر اسٹاپ اوور کے دوران مختلف اضافی چارجز بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش بھارتی ائیر لائنز کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے، جس سے نہ صرف ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اضافی وقت کی پروازوں کے باعث دیگر اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ پابندیاں برقرار رہیں تو بھارتی ائیر لائنز کو مزید مالی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ان کے لئے اس نقصان کی تلافی کرنا ایک بڑا چیلنج بن جائے گا۔