مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ 8 ماہ بعد رہا ,بھارت کشمیر میں نئی چال چلنے لگا

0
27

سرینگر:مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کو 8 ماہ بعد رہا کر دیا گیا ۔وہ 5 اگست سے زیر حراست تھے۔ ان کی رہائی سے قبل ان کے والد و جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی فاروق عبداللہ کو بھی رہا کیا جا چکا ہے۔ فی الوقت پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق سال گزشتہ کے ماہ اگست کی پانچ تاریخ کو مرکزی حکومت نے آئینی دفعات 370 و 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے ساتھ ہی عمر عبداللہ کی سیاسی سرگرمیاں مفلوج ہوکر جیل کی سرگرمیوں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔

عمر عبداللہ گزشتہ آٹھ ماہ سے جیل میں تھے اور ان پر بائیکاٹ کے باوجود لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر راغب کرنے اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو مشتعل کرنے کے پاداش میں ماہ فروری کے پہلے ہفتے میں پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران عمر کی دوران حراست لی گئی لمبی اور سفید داڑھی والی تصویریں وائرل ہوگئیں جو سوشل میڈیا پر عوامی حلقوں میں بالعموم اور سیاسی حلقوں میں بالخصوص گرم مباحثے کا باعث بن گئی تھیں۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اپنی والدہ کی خواہش کے برعکس لیکن اپنے خاندانی روایات کے عین مطابق عمر عبداللہ نے سال1998 میں اپنی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا اور این ڈی اے حکومت کے دوران 23 جولائی 2001 سے 23 دسمبر 2002 تک مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ کے عہدے پر براجمان رہے۔سیاسی کیرئر کے روز اول سے ہی عمر عبداللہ کا اپنے بیانات اور تقاریر کے باعث پارٹی میں بھی اور باقی سیاسی حلقوں میں بھی طوطی بولنے لگا اور لوگ انہیں اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے نسبت سنجیدگی سے لینے لگے۔

القمرآن لائن کے مطابق سیاسی میدان میں کئی نشیب وفراز دیکھنے کے بعد عمر عبداللہ سال 2009 میں جموں کشمیر کے عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹے وزیر اعلی کے طور پر راج گدی پر بیٹھے۔ اس دوران انہیں جموں کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔

عمر عبداللہ نے سیاسی زندگی کے آغاز سے قبل سال 1994 میں ایک فوجی افسر کی صاحبزادی پائل عبداللہ سے نکاح کرکے اپنی ازدواجی زندگی بھی شروع کی تھی لیکن وہ شادی بعد ازاں طلاق پر منتج ہوئی۔تختہ اقتدار سے محرومی کے بعد عمر عبداللہ اپوزیشن میں رہ کر سوشل میڈیا پر بھی کافی سر گرم رہے۔

حزب اقتدار جس میں بی جے پی بھی ایک شرکت دار تھا، کے خلاف تیکھے وار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور سوشل میڈیا پر بھی کسی بھی مسئلے پر اظہار خیال کرنے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس بنا پر وہ ٹویٹر ٹائیگر کے نام سے بھی مشہور ہوگئے۔

Leave a reply