غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرِ قبضہ جموں کشمیر میں پہلگام کے علاقے بیسرن میں غیر مقامی افراد پر حالیہ حملے کے ساتھ ہی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے بھارتی میڈیا پر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔
پہلگام کی وادی بیسرن میں غیر مقامی افراد پر حملے نے ایک بار پھر مقبوضہ جموں کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہونے کے بھارتی دعووں پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جہاں مقامی سیاسی قیادت نے فوری طور پر اس واقعے کی مذمت کی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف احتساب کا مطالبہ کیا، وہیں بی جے پی کے رہنما رویندر رائنا نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے اپنا معمول کا بیانیہ پیش کیا، جو ایسے مواقع پر اکثر سننے کو ملتا ہے۔
بھارتی میڈیا اس حملے کو سیاحت کو نقصان پہنچانے اور خوف پھیلانے کی کوشش کے طور پر پیش کر رہا ہے، تاکہ سکیورٹی کی ناکامی اور انتظامی نقائص سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ اس ردعمل سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ بھارت داخلی ناکامیوں کو بیرونی عوامل کا بہانہ بنا کر چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس واقعے نے مقبوضہ کشمیر میں حالات کے معمول کے مطابق ہونے کے بھارتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ حقیقت میں، علاقے میں حالات بے حد غیر مستحکم ہیں۔ بھارت کی جانب سے امن اور ترقی کے جھوٹے بیانیے کو ایک بار پھر بے نقاب کیا گیا ہے۔بھارت، ریاستی پالیسی کے طور پر اصل زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے جھوٹ بولنے اور پروپیگنڈہ پھیلانے پر مصر ہے، لیکن دنیا کو زیادہ دیر تک زہریلے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں فائرنگ کے نتیجے میں متعدد سیاح ہلاک ہوگئے ہیں ۔ بھارت روایتی طور پر کسی غیر ملکی سربراہ کے دورے یا اہم موقع پر، فالس فلیگ کا ڈرامہ رچا کر دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے قابو سے باہر سیکورٹی حالات سے ہٹانا چاہتا ہے، یہ محض اتفاق نہیں کے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر مبینہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب امریکی نائب صدر بھی ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں۔