22 جولائی کو سب وزیر اعلی کے انتخاب پرمتفق،رات کو حکمنامہ جاری کرینگے،چیف جسٹس

0
55
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف تحریک انصاف کی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ میں شامل ہیں پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان روسٹرم پر آگئے ویڈیو لنک پر لاہور سے وکیل امتیاز صدیقی پیش ہوئے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ 5درخواستیں ہیں کس کی طرف سے کون سا وکیل پیش ہورہا ہے ؟ بابر اعوان نے کہا کہ میں درخواست گزار سبطین خان کی طرف سے پیش ہورہا ہوں 16 اپریل کو حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا انتخاب ہوا، وزیراعلیٰ کے انتخاب کے روز فلور پر پرتشدد ہنگامہ ہوا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے وہ ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ،فیصلے میں کہا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لیے ان میں سے25 نکال دیئے ہیں،جب وہ 25 ووٹ نکال دیتے ہیں تودوبارہ گنتی کرائیں، 4 ججز نے یہ کہا ہے کہ پہلے گنتی کرائیں اگر 174 کا نمبر پورا نہیں تو پھر انتخاب کرائیں،آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آپ کے کچھ ممبران چھٹیوں اور حج پر گئے ہیں،جتنے بھی ممبرا یوان میں موجود ہوں گے اس پر ووٹنگ ہوگی،جو کامیاب ہوگا وہ کامیاب قرار پائے گا،آپ کی درخواست ہے کہ وقت کم دیا گیا ہے،

بابر اعوان نے کہا کہ استدعا ہے زیادہ سے زیادہ ممبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں ہم درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں،بنیادی طور پر آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے،بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ 4ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے،کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو ممبران کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24سے48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں؟ بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں ، لیول پلینگ فیلڈ کیلئے وقت دیا جائے،ہمیں سات دن کا وقت دیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سات دن کا وقت مناسب نہیں ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ
ہم تو دس دن چاہتے تھے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ بتائیں جو مناسب وقت آپ کو چاہیئے، بابر اعوان نے کہا کہ ہماری پانچ مخصوص نشستوں پر خواتین کا نوٹیفیکیشن ہونا ہے اس کو سامنے رکھا جائے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سات دن صوبہ وزیر اعلی کے بغیر رہے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں کیا ہے لکھا ہے کہ اگر وزیر اعلی موجود نہ ہوتو صوبہ کون چلائے گا۔ بابر اعوان نے کہا کہ اس صورت میں گورنر اس وزیر اعلی کو نئے وزیر اعلی آنے تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صوبہ دو دن بغیر وزیر اعلی کہ رہ سکتا ہے، بابر اعوان نے کہا کہ ایسی صورت میں عبوری حکومت آئے گی اگر وزیر اعلی بیمار ہو تو سینیئر وزیر انتظامات سنبھالے گا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب ہم سمجھے ہیں کہ ہائیکورٹ کے 5 رکنی ججز نے ایسا فیصلہ کیوں دیا،وہ چاہتےہیں کہ صوبے میں حکومت قائم رہے۔ موجودہ وزیراعلی ٰنہیں تو پھر سابق وزیر اعلی ٰکا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،سابق وزیر اعلی کی اکثریت میں سے 25 میمبران تو نکل گئے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر25 ووٹرز نکال لیں تو پھر موجودہ وزیر اعلی ٰبھی برقرارنہیں رہتا ،وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ اگر ہمارے 25ممبران نکل بھی جائیں تو 169 ہمارے پاس ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعلی کے پاس 186 ووٹ نہیں ہیں تو انکا فی الحال وزیراعلی برقرار رہنا مشکل ہے،بابر اعوان نے کہا کہ پنجاب میں ایک قائم مقام کابینہ تشکیل دی جا سکتی ہے،

ویڈیو لنک پر لاہور سے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیئے ،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سترہ جولائی کو عوام نے بیس نشستوں پر ووٹ دینے ہیں،ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ عوام خود فیصلہ کرے تو جمہوریت زیادہ بہتر چل سکتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ‏اجلاس نہ ہونے پر قائل کریں پھر دیکھیں گے کہ آج نہیں تو کب ہوسکتا ہے، کیا کوئی ایسی شق ہے کہ وزیراعلی کے الیکشن تک گورنر چارج سنبھال لیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعلی کے دوبارہ آنے کی کوئی صورت نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال صرف یہ ہے کہ آج چار بجے اجلاس ہونا ہے یا نہیں، ‏قانونی طریقے سے منتخب وزیراعلی کو گورنر کام جاری رکھنے کا کہ سکتا ہے، مطمئن کریں کی 4 ججز کا دیا وقت مناسب نہیں

عدالت نے تحریک انصاف کو سات دن کی مہلت دینے سے انکار کردیا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 7 دن تک کیا صوبہ وزیر اعلی کے بغیر رہے، سات دن کا وقت دینا مناسب نہیں،‏مزید سماعت 2.45 تک ملتوی کر دی گئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیرآئینی ہوگا، آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چکا سکتے ہیں، ہم آپکو آدھا گھنٹا دیتے ہیں سر جوڑیں اور سوچیں۔

وقفے کے بعد سماعت ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز روسٹروم پر آجائیں،ہمارے سامنے جو معاملہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت زیادہ زیادہ نہیں دیا گیا،زیادہ وقت نہ دینے کی مختلف وجوہات ہیں، عدالت خود سے وقت دیتی ہے تو حکومت کون چلائے گا،بتایا گیا کہ وقت دیا جائے تو حمزہ شہباز کام جاری رکھ سکتے ہیں،کیا یہ بات درست ہے؟ چودھری پرویزالہیٰ نے کہا کہ بات اس طرح نہیں، اسمبلی کے باہر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب کی نظریں اس معاملے پر ہیں اس کو آئین اور جمہوری روایات کے مطابق حل ہونا چاہیے،وکلا نے کہا کہ پولنگ کا وقت 17تاریخ تک کا دیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے پرویز الہیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی بنیاد پر آپ کو بلایا ہے، آپ کی درخواست میں 26 گھنٹوں کو بڑھانے کی استدعا کی گئی ہے،آپ کے وکیل نے 10 اور 7دن کی استدعا کی،آپ کی طرف سے آنے والی سفارش پر ہمیں لگا کہ آپ اس پر سوچیں، آپ کے وکیل نے 10 اور 7دن کی استدعا کی صاف شفاف الیکشن کے بعد جس کی اکثریت ہو وہ وزیر اعلی ٰبن جائے گا،پرویز الہیٰ نے کہا کہ میرے خیال میں ہاوس 17تاریخ تک مکمل ہوگا،اس وقت تک ساراعمل مکمل ہو جائے تو ہمارا کوئی اعتراض نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت تک حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ رہنے کو آپ مانتے ہیں ،پرویز الہیٰ نے کہا کہ میں ایسا نہیں مان سکتا وہ اپنے عہدے پر نہ رہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پھرہم آئینی راستہ اختیار کریں گے جس سے آپ دونوں کا نقصان ہوگا،پرویز الہیٰ نے کہاکہ عدالت یہ حکم دیں کہ ہم آپس میں طے کریں جس حل پر دونوں راضی ہوں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام آپ عدالت آنے سے پہلے کرکے آجاتے نا چودھری صاحب،

حمزہ شہباز نے کہا کہ عدالت کا احترام کرتا ہوں ،شخص اہم نہیں نظام اہم ہے،قوم نے دیکھا کہ ڈپٹی اسپیکر پر حملہ ہوا ہمارے پاس عددی اکثریت موجود ہے، آج الیکشن ہونے دیا جائے جب 20سیٹوں پر الیکشن ہوگا تو عدم اعتماد کی تحریک لاسکتے ہیں،ہم نے اپنے لوگوں کو حج پر جانے سے روکا، انہوں نے اپنے بندوں کو کیوں نہیں روکا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو پرویز الہٰی کی تجویز منظور نہیں،آج جو 4 بجے اجلاس ہونا تھا وہ اب نہیں ہوگا کیونکہ4 بج چکے ہیں،اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ 17 تک دونوں فریقیں راضی ہیں کہ الیکشن نہ ہو ، حمزہ شہباز نے کہا کہ دوسری طرف سے اگر کوئی قانونی دلیل ہو تو میں ماننے کو تیار ہوں،آئین اور قانون کے مطابق میرے پاس عددی اکثریت ہے،اگر17 تک کوئی بھی وزیراعلیٰ نہ رہا تو نظام کیسے چلے گا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت میں ہم گورنر کو ہدایت کرسکتے ہیں کہ وہ نظام چلانے کے اقدامات کرے اگر ہم مزید وقت دیں تو آپ وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے،حمزہ شہباز نے کہا کہ اس کا بہتر حل ہے کہ آج رات12بجے تک الیکشن کرائے جائیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ نے ایک مناسب وقت دیا ہے،اب جو وقفہ آیا ہے اس کے لیے وقت دینا چاہیے،حمزہ شہباز نے کہا کہ یہ معاملہ اسی فورم پر حل ہونا ہے عدالت جو فیصلہ دے،

پرویز الہیٰ نے کہا کہ ہمارے آنے کا سبب یہ ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش ہوئے ہیں،17 جولائی کے بعد تک کا وقت مل جائے تو بہتر ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ قانون کے مطابق یہ الیکشن فوری ہو، ہائوس پورا ہو یا پھرابھی،ہمیں 17 تک کا وقت دینا مناسب نہیں لگتا ،اگر حمزہ شہباز یہ کہیں کہ 17 کو الیکشن کرائیں لیکن اس دوران حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں گے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وہ مل بیٹھ کر حل نکالنا نہیں چاہتے، وہ رن آف الیکشن کی بات کررہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ مجھے 17 تک وزیر اعلی رہنے دیں،ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ہیں اس پر عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کرائیں،پرویز صاحب آپ کے پاس دو آپشن ہیں کہ حمزہ شہباز کو17 تک وزیر اعلی مانیں یا پھر اس سے پہلے جو وقت دیتے ہیں تو اس دوران الیکشن کرائیں،پرویز الہیٰ نے کہا کہ اگر ہم ان کو 17تک وزیر اعلی مانتے ہیں تو اس سے پہلے وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں اور پکڑ دھکڑ نہ کریں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم حکم دینگے کہ کوئی پکڑ دھکڑ نہ ہو،الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتو کوئی تقرری اور تبادلہ نہ ہو،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں اس وقت کہ کمپرومائیز نہ ہو،آپ دونوں بیٹھ جائیں اس کا کوئی قانونی حل نکالتے ہیں، پرویز الہیٰ نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ حمزہ شہباز17 تاریخ تک قائم مقام وزیر اعلی رہیں،

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہاں پنجاب اسیمبلی والوں کا موقف الگ یے بابر اعوان آپ کا موقف کیوں الگ ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم چاہتے سیاست میں کوئی اختلاف نہ رہے ،ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل چلتا رہے۔ پی ٹی آئی کے وکلا کا موقف اپنے امیدوار سے الگ کیوں ہے؟ بابر اعوان نے کہا کہ ہم اتحادی ہیں وہاں اکثریت میں ہیں، درخواست گزار اپوزیشن لیڈر ہیں، پرویز الہیٰ نے کہا کہ میاں محمود الرشید کا مشورہ عدالت کے سامنے رکھا ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے کسی پارٹی کی نہیں ایک انفرادی شخص کی درخواست ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وقت دیں تب تک وزیر اعلی کو ہٹا دیں بابر اعوان صاحب ہم آئینی بحران نہیں پیدا کرنا چاہتے،اگر دو دن کا وقت دیتے ہیں تو نظام حکومت کون چلائے گا ،بابر اعوان نے کہا کہ
ہم حمزہ شہباز شریف کو عبوری طور پر وزیر اعلی نہیں مانیں گے، بابر اعوان نے پرویز الہی کے موقف کی عدالت میں تردید کردی۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا موقف سامنے رکھنا چاہتے ہوں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار آپ نے کہا کہ 17جولائی تک ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور 7 دن کا وقت مانگا،بابر اعوان نے کہا کہ سوال ہے کہ ہمیں مزید وقت چاہیئے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے کہا کہ لگتا ہے آپ نےآئین کا آرٹیکل 130 مکمل نہیں پڑھا، اس کو پڑھیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کا اور آپکے امیدوار کا موقف ایک جیسا نہیں ہے تو عدالت کیا کرے ؟ بابر اعوان نے کہا کہ باقی عدالت جو حکم دیگی وہ ہم مانیں گے،اس بحران سے نکلنے کےلئے کچھ وضاحت آپ نے کرنا ہوگی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہاں آئینی معاملہ ہے، اس کوحل کرنا ہے اس کو مزید خراب نہیں کرنا، بابر اعوان نے کہا کہ آئین کی ایک شق ہے جو 187/1 ہے ، عدالت نے کہا کہ آئین کی شق 187/1 کو ایسے ہی استعمال نہیں کرسکتے ،اب ساڑھے چار بج چکے ہیں، بابر اعوان نے کہا کہ آپکا شکریہ جو آپ ہمیں سن رہے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ شکریہ ادا نہ کریں یہ ہمارا کام ہے، اگر دوبارہ پول کی اجازت دیتے ہیں تو کچھ وقت دینا ہوگا،وزیر اعلی کے الیکشن میں پہلی بار ایسی صورتحال ہوئی ہے،اب نکتہ یہ ہے کہ اگر وزہر اعلی کو ہٹا دیتے ہیں تو اس کا حل نکالنا ہوگا، ہوسکتا ہے چند دنوں میں اس کا حل نکل آئے لیکن20 دن نہیں دے سکتے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر آپ راضی نہیں ہوتے تو ہم آرڈر پاس کردیں گے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سینیئر سیاستدان اس کا حل نکالیں،وکیل پی ٹی آئی پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ہم نے کورٹ میں مشاورت کی ہے اسپیکر کے ساتھ کہ 17جولائی کے بعد کا وقت دیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے موکل کی درخواست ہی نہیں اس لئے آپ کو کیوں سنیں،بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں مزید دس منٹ دیں پارٹی لیڈر سے بات کرنا چاہتا ہوں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بابر اعوان آپ کو ہم دو سے تین دن دینگے اس قانون میں بھی جواز ہے،پرویز الہی آپ بھی اپنے اتحادیوں سے مشورہ کرلیں اور آدھے گھنٹے میں دوبارہ بتائیں ،

دوبارہ سماعت ہوئی تو پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ہم اس نکتے پر راضی ہیں کہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کے عہدے پر کام جاری رکھیں،اس بات پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے اتفاق ہوا ہے، پرویز الہیٰ نے کہا کہ اسپیکر ہوتے ہوئے حمزہ شہباز کو لیڈر آف اپوزیشن مانا اور ان کی رہائی کے آرڈر جاری کئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا اس نکتے پر راضی ہونا اچھی بات ہے،میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ دونوں فریقین راضی ہو گئے ہیں، بابر اعوان آپ بتائیں کیا بات ہوئی؟ بابر اعوان نے کہا کہ اسد عمر اور دیگر کے ساتھ پنجاب میں پارلیمانی لیڈر اور امیدوار سے بھی بات ہوئی،ہمیں عبوری طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ حمزہ شہبازکام جاری رکھیں عمرن خان چاھتے ہیں عدالت آئی جی اور چیف سیکریٹری پنجاب کو قانون کے مطابق عمل کی ہدایت کرے،ہمیں عبوری طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ حمزہ شہبازکام جاری رکھے، پی ٹی آئی وکلا نے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ کام حاری رکھنے پر اتفاق کر لیا

بابراعوان نے کہا کہ ااس دوران حکومت کوئی بھی فنڈز اور اختیارات استعمال نہیں کرے گی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی اور الیکشن کمیشن کوڈ آف کنڈیکٹ پر سختی سے عمل در آمد کرے، آپ کو آپریشنل صورتحال پر اعتراض ہے کہ تنگ نہ کیا جائے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ایسا حکم دے گی جو سب کو قبول ہو گا، بابر اعوان نے کہا کہ وہاں سب کو بلاکر بٹھایا جارہا ہے، اس صورتحال کو عدالت دیکھے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتیں کھلی ہیں جس کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ عدالت آسکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ دوبارہ ہمارے پاس آئیں،بابر اعوان نے کہاکہ ہم بھی اس معاملے میں نہیں آنا چاہتے لیکن دوسرے کیسز میں آئیں گے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حمزہ شہباز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ارادہ ہے کہ انتخابات میں کسی کو ہراساں اور دھاندلی کریں؟ حمزہ شہباز نے کہا کہ میرا ایسا کوئی اردہ نہیں، میں ایک سیاسی کارکن ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتیں کھلی ہیں جس کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ عدالت آسکتا ہے، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کسی کو ہراساں اور دھاندلی نہیں کرینگے،حمزہ شہباز نے کہا کہ جی میں بالکل ایسا نہیں کروں گا،

پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ حمزہ شہباز سے متعلق 13 اپریل کو نوٹیفکیشن جاری ہوا،آپ ہمیں عدالتوں میں آنے سے روک نہیں سکتے، ہم عدالت میں آتے رہیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 22 جولائی کو سب وزیر اعلی کے انتخاب پرمتفق ہیں۔ہم ایسا آرڈرجاری کرینگے الیکشن صاف اور شفاف ہوں اور عزت اور تکریم رہے، مختصر حکمنامہ آج رات تک جاری کردینگے،

تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئ ہے، امید ہے سپریم کورٹ اس بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے آج ہی سماعت کرے گی اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس روک دیا جائے گا

قبل ازیں پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آج ہی سماعت کی جائے،وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے ہونے والے الیکشن کو معطل کرنے کا حکم دیا جائے، درخواست میں پنجاب حکومت اورڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں حمزہ شہباز،پرنسپل سیکریٹری گورنر اورسیکریٹری اسمبلی کو بھی فریق بنایا گیا ہے، دائر درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے مناسب وقت دیا جائے تاکہ دوردراز کے ممبرز پہنچ سکیں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کےلیے دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں،

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا، لاہور ہائیکورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب الیکشن کیخلاف درخواست پر 8 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے لاہور ہائیکورٹ نے پریذائیڈنگ افسر کو 25 ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا عدالت نے کہا کہ وزیراعلی ٰ الیکشن کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ انتخاب کروایا جائے جمعہ کو 4 بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے، منحرف اراکین کے ووٹ نکال کر حمزہ شہبازکی اکثریت نہیں رہتی تو وہ وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے عدالت کے احکامات تمام اداروں پرلاگو ہوں گے، پنجاب اسمبلی کا اجلاس اس وقت تک ختم نہیں کیاجائے گا جب تک نتائج جاری نہیں کیے جاتے، صوبے کا گورنر اپنے فرائض آئین کے مطابق ادا کرے گا پنجاب اسمبلی کے نتائج آنے کے بعد گورنردوسرے دن 11 بجے وزیراعلیٰ کا حلف لیں گے عدالت پنجاب اسمبلی کے مختلف سیشنز کے دوران بدنظمی کو نظر اندازنہیں کرسکتی ،کسی بھی فریق کی طرف سے بدنظمی کی گئی توتوہین عدالت تصور ہوگی درخواست گزاروں کی تمام درخواستیں منظور کی جاتی ہیں درخواست گزاروں کی پٹیشن دوبارہ گنتی کی حد تک منظور کی جاتی ہے،پٹیشنز میں باقی کی گئی ایاستدعا رد کی جاتی ہے، اسپیکر کی جانب سے وزیراعلیٰ کی حلف برداری سےمتعلق اپیلیں نمٹا ئی جاتی ہیں،تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا

حمزہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلی پنجاب اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا

آئین شکنوں کو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا چاہئے،مریم نواز

حلف اٹھانے کے بعد حمزہ شہباز کا عمران خان کے سابق قریبی دوست سے رابطہ

Leave a reply