انصاف (عدالت) اور معاشرہ . تحریر : ذیشان علی

0
52

کوئی بھی معاشرہ اصول قوانین اور ضابطہ اخلاق کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، کسی بھی معاشرے اور ریاست میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رعایا کو انصاف دیا جائے، بحیثیت مسلمان ہمیں ظلم اور بے انصافی زیب نہیں دیتی ہمارے لیے حکم ہے کہ انصاف کے ساتھ پورا تولو اور حد سے تجاوزنہ کرو صلہ رحمی کرو بےشک اللہ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.

اللہ تعالی قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے،
"یقیناً اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف پر مبنی فیصلہ کرو یقین رکھو اللہ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے، بےشک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ” سورہ نساء 58.

مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہ واضح کیا ہے جب لوگوں کے درمیان کسی مقدمے کا فیصلہ کرو تو ان کا مذہب خواہ کوئی بھی ہو یا دوست ہو یا دشمن فیصلہ کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ تمام تعلقات سے الگ ہو کر سچائی کے ساتھ اور انصاف پر مبنی فیصلہ کریں،
جو فیصلہ اپنے پرائے کے تعلقات پر مبنی ہو جو فیصلہ حقائق کو چھپا کر اور جو فیصلے تعلقات پر مبنی پیسہ وجائیداد کے عوض کیے جائیں وہ ظلم اور زیادتی کے زمرے میں آتے.

انصاف پر قائم رہنا کسی حکومت اور عدالت کا ہی کام نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں یہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرے، یعنی دوسروں کو بھی انصاف پر قائم رہنے کی ترغیب دے، عام فہم الفاظ میں کہ انصاف کو خریدنے اور بیچنے سے بچا جائے، جو ریاست اپنی رعایا کو انصاف دیتی ہے انصاف وہ جو صاف شفاف ہو جو امیر غریب گورے کالے میں بغیر کسی فرق رکھے کیا جائے اور نہ کسی کا عہدہ یا پیسہ و جائیداد انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہو.

جو معاشرے جو ریاستیں انصاف قائم نہیں کرسکتے پھر ان ریاستوں میں اور معاشروں میں ظلم بڑھتا ہے اور ظلم کے ساتھ فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے کوئی بھی ریاست اور معاشرہ ظلم اور فتنوں کے ساتھ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا یعنی انصاف کا قتل معاشروں اور ریاستوں کے لئے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے.

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقان حمید میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے،
"ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے احکام دے کر بھیجا ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) انصاف کرنے کے احکام کو نازل فرمایا،
تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں” سورہ الحدید 25.

ریاست اسلامی ہو یا غیر اسلامی معاشرہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی عدل کو قائم رکھنے ہی میں سب کی بھلائی ہے،
اللہ تعالی کی کلام مسلم اورغیرمسلم تمام کے لیے ہے، اس میں کائنات کی وسعتوں کی تمام نشانیاں ہیں اس میں زندگی گزارنے کے طور طریقے ہیں، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم کیا گیا اس کتاب کی تلاوت کرنا اور اسے سمجھنا اور اس پرعمل کرنا.
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اور ہمارے ملک کو اور ہماری عدالتوں کو انصاف پر قائم رکھے، ہرشخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف پسند ہو انصاف پسند افراد خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتے ہیں خوبصورت معاشرہ خوبصورت قوم اور خوبصورت ریاست میں بدل جاتا ہے، خوبصورت معاشرے خوبصورت ریاستیں ظلم و زیادتی سے نہیں عدل و انصاف سے ہی قائم ہو سکتی ہیں،

@zsh_ali

Leave a reply