"انسان ماحول کا قاتل ہے’ — اعجازالحق عثمانی

اس کائنات میں اربوں کہکشاؤں کے درمیان جینے کی سہولت فقط ہمارا ہی سیارہ (یعنی زمین) فراہم کرتا ہے۔ زمین پر زندگی گزارنے والے انسانوں کا اس سیارے اور اسکے ماحول کا محافظ اور نگہبان ہونا چاہیے تھا ۔مگر یہی انسان زمین کے ماحول کا دشمن بن گیا۔صنعتی انقلاب نے جتنا انسانی زندگی کو آسان بنایا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ماحول کو تباہ کیا ہے۔ماحول اس قدر تباہ ہوچکا ہےکہ اب اس کے واضح اثرات کرہ ارض پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔صنعتی انقلاب کے آغاز میں سبھی ممالک نے زمینی وسائل کا بےردیغ استعمال کرکے زمین کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1972 میں جب اقوام متحدہ کے زیر انتظام، پہلی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی ۔تب تک انسان ماحول کا قتل کر چکا تھا ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ستر لاکھ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پلاسٹک کے استعمال کی وجہ سے سرطان کی شرح میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی نا صرف زمین کو تباہ کر رہی ہے۔ بلکہ انسانی جسم کے گارڈ یعنی دفاعی نظام کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی کئی اقسام ہیں ۔ مگر زیادہ اثرات دو کے ہی ہیں۔

• آبی آلودگی:

آب یعنی پانی؛ مختلف آبی ذخائر مثلاً سمندر، دریا، اور جھیلوں وغیرہ کو آلودہ کرنے میں انسان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ صنعتی اور گھریلو فضلہ ہم پانی میں جب تک نا پھینکیں ہمارا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا شاید۔ کوڑا کرکٹ بھی ہم پانی کے سپرد ہی کرتے ہیں۔انسان نے اپنی سہولت کے لیے بڑے بڑے بحری جہاز بنائے۔ جو چلتے ہوئے زہریلے مادے خارج کرتے ہیں۔ ان جہازوں کا تیل اور زہریلے مادے آبی آلودگی کی وجوہات میں سب سے نمایاں ہیں۔

• فضائی آلودگی:

فضائی آلودگی، آلودگی کی سب سے زیادہ خطرناک قسم ہے۔ بے ہنگم ٹریفک کا دھواں ، صنعتوں میں استعمال کیے جانے والے فوسل فیولز ، تمباکو نوشی ، سپرے ، بھٹوں اور چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ماحول کو آلودہ کرنے میں سب سے آگے ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق روازنہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد فضائی آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔ متاثرہ افراد دمہ ،سینے کے انفیکشن، ہارٹ اٹیک جیسی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ماحول انسان کا لازمی جزو ہے ۔ اور انسانی غیر قدرتی سرگرمیاں ہی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر خلیفہ بنا کر بھیجا۔ دنیا کی تمام تر نعمتیں حتی کہ زمین اور اسکا ماحول بھی انسان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا۔ قرآن کریم میں تقریباً دو سو کے قریب آیات ماحول کے متعلق ہیں۔

"اللہ تعالیٰ کی کاریگری ہے ۔جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا ہے”۔ (النحل)

"پھر انسان کو تسخیر کی قوت بھی عطا کی گئی ہے۔کائنات کے خزانوں کے استعمال اور ان کو جاننے کی جستجو اس کی طبیعت میں ودیعت کی گئی ہیں۔علم جیسی قیمتی دولت سے نواز کر اس کو کل مخلوقات میں ممتاز و منفرد بنایا ہے”۔(البقرہ)

قرآن مجید کے علاؤہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی ہمیں ماحول کو آلودگی سے بچانے کی ترغیب ملتی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

"جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشتکاری کرتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے”۔(بخاری: 2320)

ماحولیاتی آلودگی اور اسکے اثرات ویسے تو ایک بین الاقوامی مسئلہ اور عمل ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے حکمرانوں نے اس ملک اور عوام کو ماحولیاتی آلودگی کے اثرات سے بچانے کےلئے کوئی عملی اقدام اٹھایا ہے؟۔ تو یقیناً جواب ہوگا، ‘بالکل بھی نہیں’۔ عالمی ماحولیاتی اداروں نے کئی برس قبل یہ بتا دیا تھا کہ اگر پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف توجہ نہ دی تو 2020 سے 2025 کے درمیان پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں سے ایک ہوگا۔ جو شدید موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کے شکار ہونگے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس بھیانک الارم کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی۔ عوام حکمرانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو سنجیدہ لینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ کوڑا کرکٹ سر راہ ہم پھینک دیتے ہیں۔ یا کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ہم درخت لگانے کی بجائے دھڑا دھڑ کاٹے جا رہے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی ادارے موجود ہیں۔ مگر انکا کردار بہت افسوس ناک ہے۔ دھڑا دھڑ درخت کاٹے جارہے ہیں، غیر قانونی فیکٹریاں ماحول کو آلودگی کرنے میں معروف ہیں۔ مگر پاکستان کے ماحولیاتی ادارے صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حکام کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔ مگر وہ ہوش کے ناخن کہاں لیں گے۔ وہ تو صرف ووٹ ہی لیں گے۔ بطور ذمہ شہری ہم سب کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیے۔ کیونکہ جب تک پوری قوم اجتماعی طور پر ماحولیاتی آلودگی کی روم تھام میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گی ۔تب تک اسے ختم کرنا ناممکن ہے ۔ اگر ہم سب انفرادی طور پر ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو نہ صرف ہم خود اس کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔

Comments are closed.