انسان نما بھیڑیے . تحریر : سہیل احمد چوہدری

0
50

کووڈ -19 نام تو ابھی یاد ہی ہوگا جس نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی. زندگی جیسی بھی سہی گزر رہی تھی. ہر کوئی اپنی چال چل رہا تھا. اپنی خواہش اوراستطاعت کے مطابق زندگی کے پلان بنا رہا تھا.یہ ہوگا تو وہ ہوگا ایسے کریں گے ویسے کریں گےوغیرہ وغیرہ.

پریقینا ہم یہ شاید بھول چکے رھے کہ "سامان سو سال کا پل کی خبر نہیں” کیونکہ ہوگا وہی جو اسکی چاہت ہے. اچانک ایک بات نکلی اور آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اس کے چرچے ہونے لگے. توجہ کا مرکز چین نکلا. چین کے شہر ووہان جو کہ تجارتی مرکز تصور کیا جاتا ہے.کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی.جس کی جتنی سمجھ تھی اس نے اس کا چورن سوشل میڈیا پر بیچا.

بات کچھ یوں ہے کہ امریکہ اورچائنہ کی عالمی طاقت ہونے پر سوال اٹھنے لگے. کبھیG-5 پر ملینڈا ایڈ کمپنی کو رگڑا گیا. کبھی چائنہ میں چمگادڑوں.بندروں. سانپوں. کتوں کے کھانے پرمورد الزام ٹھہرائے گئے. رہے سہے چائنہ نے جو اقدامات ووہان شہرمیں کئے وہ سب آپ جانتے ییں. پھراسی فضاء نے یورپ کا رخ کیا اور اپنی لپیٹ میں کے لیا. فکر اس بات کی ہے جن کو ہم کافر کہتے ہیں پھر ہم انسانیت کے لحاظ سے انکی تعریف کیوں کرتے ییں؟ وہاں وباء کے دوران روزمرہ زندگی کی ہرشے کو سستا کیا گیا اورنظم ضبط کو ہمیشہ ملحوظ خاطررکھا گیا.

اب آتے ہیں اپنے پیارے ملک پاکستان میں بحثیت ملازم کام کی وجہ سے مارکیٹ کے لوگوں کے ساتھ کافی میل جول یے. اس لیے سچ لکھنے پربضد ہوں. جیسےںی کورونا 2020 کے اوائل میں اپنا سراٹھانے لگا تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی. کاروباری حضرات نے وباء کے دوران سر میں چمپی لگا کر سوچنا شروع کیا کہ اس وباء پر کیسے کاروبار کیا جائے. ملک پہلے ہی قرض کے بوجھ تلے ڈوبا ہوا تھا اوپر سے ڈالرکی اڑتی اڑان کم تھی جو یورپ میں وباء کی تباہ کاریوں کی بدولت مزید پریشانیاں پی ٹی آئی کی حکومت کے آڑے آئیں. ڈبلیوایچ اوکی خدمات لی گئیں.مختلف ٹیٹو پاٹیاں اورلفظوں کے ہیر پھیرپرخطاب وارد ہوئے. احساس پروگرام.ہیلتھ کارڈ.راشن کارڈ.موضوع بحث رہے.

ملکی مافیا چاہے کسی شعبہ زندگی سے تعلق ہو حکومت کے آگے تن کرکھڑی ہوگئی. پٹرول مافیا. چینی مافیا. مہنگائی کے چکرمیں بیچاری غریب عوام دردرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہوئی. پردوسری طرف حکومت کے لگائے لاک ڈاون اور وقت کی بندش اور تجاوزات ہٹانے پر بےچارہ غریب مرتا ناں تو کیا کرتا. بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں کو ملازمین کو منٹوں میں نوکری سے فارغ کرتے دیکھا. خالی ہاتھ گھروں میں بھیج دیا گیا. 2020 میں اسکول بںد ہونے پر 20 فیصد فیس میں کمی وہ بھی عدالت کے نوٹس لینے پرجو 2021 میں شاید عدالت کو اپنی غلطی کا احساس ہونے پریاد آگیا.
حیرت ہے مافیا ڈھونڈنے والوں کو اسکول کیوں بھول جاتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے کورونا صرف غریبوں کیلیے آیا کیونکہ ماسک سے لے کر ادویات اور کپڑے والوں کو شاید استثنی حاصل رہا. رہے سہے 2020 گزرگیا پر شاید ہم نے سیکھا کچھ نہیں.

اب آتے ہیں اصل مدعا پر2021 میں تیسری لہر آئی تو لوگوں نے حکومت کے ایس او پیز کے مطابق 20 % عمل کیااور اس کو محض ایک ڈرامہ اورسازش سمجھا. آہستہ آہستہ جب کورونا نے ہسپتالوں کی ایمرجنسیز اور گھروں کا رخ کیا تو لوگ کو 30 % یقین ہونے لگا
خیر ایک سال کی تحقیق کے بعد یہ رزلٹ آیا کہ کورونا کے مریض کو فوری طورپرجس چیز سے بچانا ہے وہ ہے اس کا Clotting Factor
D-Dimer جس کاپرائیویٹ لیبارٹری میں ٹیسٹ تقریبا 2000 کا اور دوسرے فیکٹر ڈال کر 6500 ٹوٹل خرچا. کورونا کے مریض کا خون گاڑھا ہوجاتا یے جس کی وجہ سے خون کی نالیوں میں انجماد کی وجہ ہے ہارٹ اٹیک پربندہ فارغ.

اب مسئلہ یہ تھا کہ اس ضمن میں جو دوائی موجود ہے وہ hyprin .Clexin انجیکشن یاں آخرمیں لوپرن یاں اسکارڈ رہ جاتی ہے.ہوا یوں کہ مافیا پھرسرگرم رہا اوردیکھا کہ کووڈ کے مریضوں کیلیے یی ادویات بہت ضروری بلکہ لائف سیونگ ڈرگزبن گئیں تو انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنا کاروبار کوچارچاند لگانے کیلیے بلیک کا گنوونا دھندہ شروع کیا اوراپنے پاس اسٹاک جمع کرلیا. لوگ دوا کے ناں ملنے سے مرنا شروع ہو گئے. رہی بات دوا ساز کمپنی کی تو دوا کا ناں ملنا صرف یہ تھا کہ 2020 میں دوا ساز کنپنی دوا کی قیمت بڑھا چکی تھی .اس پر وقت مقرر کیا جاتا ہے خیر انہوں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور حکومت سے دوا کا ریٹ بڑھانے پر بات کی پر حکومت کے ساتھ ان کے مزاکرات ناکام ہوگئے.

جیسا کہ ہم خوف اورمجبوری کی بناء پرلوگوں کو لوٹتے ہیں اور یہی سچ ہے. جب ان انجیکشن کا پتا کیا گیا تو جنہوں نے بلیک کیا تھا ان کو ناں تو کوئی پکڑنے والا اورناں کاروائی کرنے والاہے. انہوں نے لوگوں کے پیاروں کے پیار میں بچھڑنے کی مجبوری میں خوب پیسا کمایا.
میرا گلہ صرف یہ ہے کہ کیا ہم نے یاں ہمارے کسی پیارے عزیز نے کیا کبھی بیمارنہیں ہونا، کیا وہ اس انجیکشن کو بلیک میں بیچ کر اپنے پیاروں کو ہر بیماری سے محفوظ رکھ پائیں گے.

خدارا انسان بنیں، کیونکہ حقوق العباد پر معافی شاید وہ بھی ناں دے، کیونکہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی.
"” جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”
ذرہ سوچیئے……

@iSohailCh

Leave a reply