انسان پر اللّہ کی آزمائش تحریر: صادق سعید

0
48

سمندر کی گہرائی تک تو شاید کوئی پہنچ گیا ہو لیکن ماں کے پیار کا کنارہ آج تک کسی کو نہیں ملا اور نہ کبھی مل سکتا ہے کیونکہ ماں جب بولتی ہے تو اس کے لہجے میں جبرائیل بولتے ہیں۔
کیونکہ ماں جب مسکراتی ہے تو ایسا لگتا ہے کے جنت کی ساری کلیاں پھولوں کی کھل گئی ہوں۔

اللّہ نے ماں کے سینے میں وہ درد وہ محبت وہ الفتوں کا ایک جاہاں آباد کردیا ہے کیوں کے ماں تو پھر ماں ہی ہوتی ہے۔
ماں کے سینے میں رکھا ہوا پیار تو ایک اجیب کائنات ہے تڑپتی ہوئی ممتا اور ایک الگ ہی جاہاں ہے کبھی آپ نے دیکھا ہو کے بچہ جب گھر سے نکلتا ہے دنیا کی بڑی بڑی دانش گاہوں میں اسکا انتظار ہو رہا ہوتا ہے لوگوں کو عقلو دینیش سیکھانے جا رہا ہوتا ہے اور اس کی ایک ایک بات کو لوگ موتیوں کی طرح جھولیوں میں ڈالتے ہیں اور دنیا کی دانش گاہوں میں یونیورسٹییو میں اور درست گاہوں میں لوگ موتیوں جیسے اس کے جملے سننے کے لیئے بیتاب ہوتے ہیں اس کی باتیں زندگی گزارنے کا ہنر سکھاتی ہیں تو لوگ سیکھنے کے لیئے جمہ ہوتے ہیں لیکن وہ شخص جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو ماں کتنے بھولے اور پیارے انداز میں کہتی ہے بیٹا زرا سڑک زرا دیہان سے پار کرنا سوچیں زرا آپ جو دنیا کو عقلو دینیش کا سبق سکھانے جا رہا ہے کیا أس کو یہ بھی نہیں پتا کے سڑک کیسے پار کرنی ہے؟
لیکن ماں کے پیار کا روپ ہے یہ ماں کی محبت کا تیور ہے یہ ماں کی الفت کے رنگ ہیں اور جب تک بچہ گھر پلٹ کر واپس نہیں آتا ماں بیچین رہتی ہے ماں کے دل میں کھٹکا رہتا ہے اور بیٹے کے لیئے دعائیں مانگتی رہتی ہے کے میرا بیٹا خیر سے واپس گھر آجائے ماں کے سینے میں اتنا پیار کیوں ہے؟

دکھ جی لیتی ہے تکلیفیں گوارا کر لیتی ہے غریب مائیں تو بیٹوں اور بیٹیوں کا پیٹ پالنے کے لیئے کسی کے گھر کے برتن بھی مانجھنے پڑھے تو مانجھ لیتی ہے۔

تکلیفیں سہے لیتی ہے ازییتیں گوارا کر لیتی ہے لوگوں کی غلامیاں قبول کر لیتی ہے مائیں اپنی اولاد کے لیئے کیا کچھ نہیں کر لیتی ماں کو اولاد سے اتنا پیار کیوں ہے؟

ایک ہی جواب ہے اس لیئے کے ماں نے اولاد کو جنم دیا ہے جس ماں نے جنم دیا ہے وہ اتنا پیار کرتی ہے اور جس نے ہمیں خلق دیا ہے وہ کتنا پیار کرتا ہوگا جنم دینے والی کے پیار کا ٹھکانہ کوئی نہیں جو خلق کرنے والا ہے اس کے پیار کا اندازاہ کون کر سکتا ہے۔

ماں گوارا نہیں کرتی کے میرا بیٹا بھوکا رہے تکلیف میں رہے بیٹا بھوک میں تڑپے تو ماں بیچین ہو جاتی ہے اور جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے أسنے کیسے گوارہ کرلیا کے میرا بندہ بھوکا رہے۔

سحری کا کھانا کھایا ہے کڑکھتی دوپہر ہے برستی گرمی ہے زبان پر پپڑی جم گئی ہے حلق خشک ہوگیا کھانے کے لیئے پینے کے لیئے سب کچھ میسر ہے لیکن کہا نہیں ایک گھونٹ بھی نہیں لینا وضو کرتے وقت بھی احتیاط کرنا ہے کہی حلق سے نیچے کوئی قطرا أتر نہ جائے کچھ کھانا بھی نہیں ہے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب نے یہ کیسے گوارہ کرلیا؟

اس مسلئے کو سمجھنے کے لیئے پھر دوبارا ماں کی آغوش میں آنا پڑے گا بیٹا بیمار ہوگیا ماں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی أس نے دوا تجویز کی سیرپ کڑوا تھا بیٹا پیتا نہیں ماں نے زبردستی أس کو لیٹا دیا أس کا منہ کھولا أس میں قطرے سیرپ کے ٹپکا رہی ہے بچہ چیختا ہے روتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ قطرے بچے کے حلق سے نیچے اترتے جاتے ہیں ماں کے چہرے پر سکون آنے لگتا ہے۔

کیا ماں سفاق ہوگئ ہے؟ نہیں
ماں کی ممتا ختم ہوگئی؟ نہیں
وہ جو بیٹے کی آنکھ میں آنسوں نہیں دیکھ سکتی تھی وہ تڑپتے ہوئے بچے کو دیکھ کر پر سکون کیوں ہے؟
کیا ماں کی ممتا رخصت ہوگئی؟
جواب: نہیں
تو کیوں ماں اتنی خوش ہے؟
کہا بیٹا نہیں جانتا ماں جانتی ہے چند لمحوں کی تکلیف ہے تھوڑی سی کڑواہٹ ہے لیکن جب یہ سیرپ اندر اترے گا تو نتیجہ شفا کی صورت میں ہوگا ماں کی نگاہ اس کڑوہے سیرپ پر نہیں ماں کی نگاہ نتیجے پر ہے۔

کہا ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب العالمین تمہیں بہت پیار کرتا ہے لیکن بھوک اور پیاس اس لیئے گوارہ کروائی جا رہی ہے کے اس کا نتیجہ تقویٰ کی صورت میں برآمد ہوگا تمہیں اتباع کی دولت ملے گی کے تم تقویٰ کے نور پالوگے اس لیئے یہ مہینہ ایک موقع ہے ایک فہرست ہے ہم اس فہرست کو غنیمت جانے اور اپنے نفس کو قابو میں کریں روزہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے اس لیئے اس سے وہ سب کچھ سیکھیں اور اپنے من کو سنوارنے کی کوشش کریں تو جب ہم تقویٰ کی دولت پالیں گے تو روزے کا مقصود عطاء ہوجائے گا۔
اللّہ آسانیاں حاصل اور تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائے آمین یارب العالمین۔

Name: Sadiq Saeed
Twitter: @SadiqSaeed_

Leave a reply