انتہائی پسماندہ سے ترقی پذیر کا سفر: عمران افضل راجہ حصہ دوم۔

0
29

ویت نام ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ اقتصادی ترقی میں چین کا حریف
ثابت ہوا۔ اس کی برآمدات اس کے جی ڈیپی کی کل قیمت کے برابر ہیں۔ نائکی اسپورٹس
 ویئر سے لے کر سام سنگ اسمارٹ فون تک کوئی بھی چیز اس آسیان قوم میں تیار کی
جاتی ہے۔

جاپانی اور کورین الیکٹرونکس کمپنیاں جیسے سام سنگ ، ایل جی ، اولمپس، پاینیر
اور ان گنت یورپی اور امریکی ملبوسات بنانے والوںنے یہاں اپنی مارکیٹ بنائی۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں ویت نام خطے میں کپڑوں کا سب سے بڑا
اور الیکٹرانکسکا دوسرا بڑا برآمد کنندہ تھا۔ چوتھا صنعتی انقلاب جنوب مشرقی
ایشیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ 2010 کے بعد سے ، ویتنام کی جی ڈی پی نمو
ہر سال کم از کم 5 فیصد رہی ہے ، اور 2017 میں یہ 6.8 فیصد پر پہنچ گئی۔ اور یہ
 غریب ترین ممالک سے ایکدرمیانی آمدنی والے ملک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ جبکہ
 1985 میں اس کی فی کس جی ڈی پی بمشکل $ 230 تھی ، یہ 2017 میں ($ 2،343) سے دس
 گنا زیادہ تھی۔

ترقی کے عمل کو زیادہ جامع اور پائیدار بنانے میں  خواتین نے بھی بہترین
کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔  ویتنام میں ابتداء سے ہی خواتینکے کام کرنے کی حوصلہ
افزائی کی گئی اور ان کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا گیا۔ ترقی یافتہ قوموں کی
تاریخ نکال کر دیکھیں تو یہ باتواضح ہوتی ہے کہ جب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ
کام کرتی ہیں تو ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ چین اور جاپانکے
بعد ویت نام اس کی نمایاں مثال ہے۔

ابتداء میں توجہ کا مرکز زیادہ تر تعلیم تھی۔ لیکن 1992 میں صحت کے شعبے پر بھی
 توجہ دی گئی۔ ہیلتھ انشورنس کا نظام متعارف کرایاگیا۔ ابتداء میں ملازمین اور
ورکرز کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت فراہم کی گئی۔  ویت نام کی 73 فیصد آبادی کو
صحت کی ضروریسہولیات تک رسائی حاصل ہے۔ 2017 میں ہیلتھ انشورنس کوریج 86.4 فیصد
 تھی۔صاف پانی تک رسائی حاصل کرنے والےگھرانوں کی تعداد 78.1 فیصد ہے جس میں ہر
 سال اضافہ ہو رہا ہے۔

پچھلے 30 سالوں میں ویت نام ، ایک غریب ، جنگ زدہ ملک سے، دنیا کی ایک تیزی سے
متحرک معیشت کے ساتھ ایک نئے صنعتی”شیر” میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

ملک کی مسلسل معاشی ترقی مختلف عوامل پر منحصر ہے ، بشمول بیرونی براہ راست
سرمایہ کاری، سیاسی استحکام ، بنیادی ڈھانچے کیترقی ، اور بدعنوانی سے پاک
ریگولیٹری نظام۔ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی کو بڑھانا حکومت کے
بنیادی مقاصد ہیں۔

ویت نام کا غربت سے نکلنا اور اس کی معاشی ترقی امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو
 پگھلانے اور اس کے نتیجے میں تجارتی اورسرمایہ کاری کے روابط کو بہتر بنانے کے
 لیے ایک اچھا سودا ہے۔ امریکہ ویت نام کا چین کے بعد دوسرا بڑا تجارتی شراکت
دار ہے۔

ویت نام نے طویل تھکا دینے والی جنگ کے بعد ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے
جو کوششیں کیں وہ بین الاقوامی رینکنگ میںنظر انداز نہیں ہوئیں۔ ورلڈ اکنامک
فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ میں ، ویت نام 2006 میں 77 ویں نمبر سے بڑھ کر
 2017 میں 55 ویں نمبر پر آگیا۔ اس دوران ویت نام نے معاہدوں کو نافذ کرنے ،
کریڈٹ اور بجلی تک رسائی بڑھانے ، ٹیکس ادا کرنے اورسرحدپار تجارت کرنے سے لے
کر ہر چیز میں پیش رفت کی۔ آخر میں ، ویت نام نے اپنی افرادی قوت کو بڑھانے اور
 بنیادی ڈھانچےمیں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔

ویت نام کا معاشی مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ویت نام آنے
والی دہائیوں میں تیزی سے ترقی کرتا رہے گااور 2050 تک دنیا کی 20 ویں بڑی
معیشت بن جائے گا۔

ویتنام نے جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد نا مساعد حالات میں دنیا میں اپنا مقام
بنانے کے لیے جو جدوجہد کی ہے وہ ان تمام ممالککے ایک مثال ہے جو بہتر حالات
میسر آنے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ تعلیم تک سب کی رسائی، غریب
اور وہ لوگجو سکول نہیں جا سکتے ان کو تعلیم دینا، تعلیمی نظام کو جدید ضروریات
 سے ہم آہنگ کرنا ویتنام کے Doi Moi ماڈل کی اولین ترجیحتھی۔ اس کے بعد بجلی کی
 پیداوار اور صنعتوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔
ترقی پذیر ممالک کو اناصولوں کو سامنے رکھ کر اپنی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔
پہلے نمبر پر تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔ جو کامیاب
شہری بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کے بعد ملکی پیداوار میں
اضافے کے لیے توانائی کی بلاتعطل فراہمی بہتضروری ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا اور
 مزدوروں کو ان کی محنت کے مطابق اجرت دی جائے تو شہری دلجمعی کے ساتھ ملکی
ترقی میںاپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہو
رہی ہوں تو ترقی اور پیداوار کا عمل سست روی کا شکار ہو جاتاہے۔ عام طور پر
دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں ذاتی مفادات، جھگڑوں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے
میں وقت گذار دیتی ہیں۔ اورملکی مفادات کہیں پس پشت رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ جن ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہو، تعلیمی نظام فرسودہ ہو اورصنعتی شعبے
 پر توجہ نہ دی جائے تو وہ ملک کبھی بھی ترقی اور خود انحصاری کی راہ پر گامزن
نہیں ہوتے۔

Imran Afzal Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He
has been writing for different forums. His major areas of interest are
Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1

Leave a reply