اقتدار کے تین سال تحریر : سیف الرحمان

0
25

وزیراعظم عمران خان کو اقتدار میں آئے تقریباتین سال مکمل ہو چکے۔   ان تین سالوں میں بہت سے امتحانات سے بھی گزرنا پڑا۔ بقول عمران خان سب سے مشکل مرحلہ آئی ایم ایف کے پاس قرض مانگنے جانے کا تھا کیونکہ اقتدار میں آنے سے پہلے خان صاحب نے قوم سے کہاتھا کہ وہ مر جائیں گے لیکن کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔لیکن سابقہ نااہل حکمرانوں نے جاتے جاتے جو بارودی سرنگیں نئی حکومت کیلئے بچھائی اس کا اندازہ خود وزیراعظم عمران خان کو بھی نہیں تھا۔ ن لیگ نے خزانہ خالی کر کے  ملک ڈیفالٹر ہونے کے قریب  چھوڑ دیا تھا۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے دوست ممالک کا جنہوں نے بطور آکسیجن پاکستان کو پیسے اور آئل فراہم کیا۔ پھر آئی ایم ایف کی امداد بھی آ گئی۔ یوں زندگی کا پہیہ ایک بار پھر رواں ہوا۔

اس وقت ملک میں یہ  تاثر  بھی ہے کہ عمران خان  ملک کے نظام میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکے۔ یہ بات اس تناظر میں  ٹھیک ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آکر اپنے اختیارات کا  ناجائز استعمال کرتے ہوئے دولت نہیں بنائی۔ نہ نیا بنگلہ بنایا۔ نہ کوئی شوگر مل  لگائی۔ نہ بیرون ملک کوئی جائیدادخریدی۔نہ ہی رشتداروں کو اعلی حکومتی عہدوں پر بیٹھایا۔ نہ اپنے بیٹوں کو بیرون ملک پیسہ ٹرانسفر کیا اور نہ ہی کسی عربی سے اقامہ لے کر تنخواہ لی ۔ انکے قریبی ساتھی  اسد عمر، حماد اظہر  فواد چوہدری شاہ محمود قریشی   اور مراد سعید وغیرہ پر بھی اس قسم کا کوئی الزام نہیں ہے۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے  پاکستان کا شمار  ایسے ممالک میں کیا جاتا تھا  جہاں  اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن فرض سمجھی جاتی تھی۔ قوم نے بھی کرپشن کو ذہنی طور پر تسلیم کر لیا تھا بلکہ بعض لوگ تو نعرے مارتے تھے کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔اب ایسے ماحول میں کسی ایسے شخص کا حکمران  بن جانا  جوذاتی طور پر نہ تو کرپٹ ہے اور نہ ہی  اس پر کسی قسم کا کوئی کرپشن کا چارج ہے ۔جس کو  ملک کی اعلی عدالتوں نے  صادق اور امین کہا ہے۔بعض لوگوں کیلئے حیرانگی اور  بعض کیلئےپریشانی تو بننے گی۔

 اگر دیکھا جائے تو یہ  بات اپنی جگہ  درست ہے کہ  سرکاری دفاتر میں  رشوت خوری میں  اس طرح کمی نہیں آسکی جس کا وعدہ خود عمران خان صاحب نے کیا تھا۔  عام آدمی اب بھی بیشتر کام بغیر رشوت  نہیں کروا سکتا۔تحریک انصاف کا منشور کرپشن فری پاکستان کی تکمیل عملی طور پر ابھی تک دیکھنے کو نہیں مل سکی۔ نیب  نے  ان تین برسوں میں سوا پانچ سو ارب روپے سے زیادہ کرپٹ افراد سے برآمد کئے اور قومی خزانہ میں جمع کروائے ۔آپ کو یاد ہو گاجب عمران خان نے حکومت بنائی تو بیوروکریسی نے  ایک سال تک عدم تعاون کا روّیہ اختیار کئے رکھا۔ وہ فائلوں  پر دستخط نہیں کرتے تھے۔ تمام کام التوا  اور سست روی کا شکار ہو رہے تھے۔ بیوروکریسی کا موقف تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کریں گے تو  نیب انکو کرپشن کے الزام میں دَھر لے گا۔  پھرحکومت نے نیب قانون مین تبدیلی کی اورجس سرکاری افسر پر کوئی الزام ہواس کے خلاف پہلے صوبہ کا چیف سیکرٹری کاروائی کرے گا۔ اسکی منظوری کے بعد نیب اس پر ہاتھ ڈال سکے گا۔

ایک بات  جس کا ذکر لازمی ہے وہ یہ کہ تبدیلی کے خلاف مزاحمت صرف سرکاری افسروں تک محدود نہیں  بلکہ وہ تمام گروہ  بھی شامل ہیں جنکے مفادات سابقہ نظام سے وابستہ ہیں۔ اگر آپ عدالتی ریفارمز کی طرف جائیں تو وکلاء اور ججز سامنے آ جاتے ہیں۔ عدالتی بائیکاٹ اور احتجاج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کسی جج کے احتساب کی بات کی جائے تو بینچ اور بار ڈھال بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  تحریک انصاف اب تک عدالتی اور قانونی نظام میں کوئی خاص تبدیلی  نہیں کی۔حالانکہ  مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کے بعد تحریک انصاف اور اسکے اتحادیوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں سادہ اکثریت ہے۔ حکومت چاہے تو کوئی  بھی قانون پارلیمان سے منظور کرواسکتی ہے۔ اگر سینٹ میں مزاحمت ہو تو یہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکرقانون سازی کرسکتی ہے۔جب تک قانون کی بالا دستی نہیں ہو گی ملک ترقی  نہیں کر سکتا۔  تحریک انصاف کو چاہئے جوڈیشل سسٹم میں جلد از جلد ریفارمز لے کر آئے۔ عوام کو فوی ااور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے نئی قانون سازی کی جائے۔ سالوں سال کیس چلنے کی بجائے 2-3ماہ میں کیس کے فیصلےکا وقت مقرر کیا جائے۔  اسی طرح پولیس ریفارمز بھی کی جائیں۔ ایف آئی آر سے لے کر تفتیش تک اور پھر جزا سزا تک تمام مراحل کی حد مقرر کی جائے۔ ایسے تمام پولیس آفیسر جو پیسے لے کر جھوٹی تفتیش کریں انکو بھی سزا کا قانون بنایا جائے۔  ایسے پولیس والے جو بغیر رشوت کام نہیں کرتے ان کیلئے جبری ریٹائر منٹ بطور سزا پنشن ضبط قانون لایا جائے۔جس دن پولیس اور عدلیہ سہی کام کرنا شروع ہو گئی آدھے مسئلے تو خود بخود ہی حل ہو جائیں گے۔

اگر  معیشت پہ بات کی جائے تو اس کا حال فلحال اتنا تسلی بخش نہیں جتنا عوام امید لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی ایک اہم وجہ ہمارے ملک میں  خوشحال طبقہ ریاست کو پُورا ٹیکس نہیں دیتا۔ بڑے بڑے زمیندار جو کروڑ پتی، ارب پتی ہیں وہ ٹیکس نیٹ سے ہی باہر ہیں۔   ایک اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ سے زیادہ پرچون دُکاندار ہیں جو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے۔ اگر ان   سب سے ٹیکس لینے کی بات کی جائے  تو یہ ہڑتالیں کرنے لگتے ہیں۔ حکومت  کے پاس سوائے گھٹنے ٹیکنے کوئی آپشن ہیں نہیں بچتا جبکہ حکومت کا نظام پہلے ہی قرضوں پر چل رہا ہے۔   اگر معیشت سہی کرنی ہے تو ٹیکس کے نظام میں بہتری لانا ہوگی۔ ایسے تمام لوگوں سے ٹیکس لیا جائے جو اس نیٹ ورک سے باہر ہیں یا ٹیکس چور ہیں۔ غریب کیلئے  بلواسطہ یا بلاواسطہ جتنا ممکن ہو کم سے کم ٹیکس رکھا جائے۔ 

 اگر وزیراعظم عمران خان واقعی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں تو  انکو اپنے سیاسی مفادات  سے  بُلند ہوکر  جلد از جلد بولڈ اور دور اندیش فیصلے کرنا ہوں گے۔امیر لوگوں پر مضبوطی سے ہاتھ ڈالا کر ٹیکس وصول کیا جائے۔ غریب کے اوپر بلواسطہ یا بلاواسطہ  مذیدٹیکس نا لگائے جائیں۔ 

اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو ان تین سالوں میں پچاس سے ڈیڑھ سو فیصد تک مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں۔  بعض اشیاء کرونا کی وجہ مہنگی ہوئی جبکہ بعض اشیاء ملک میں موجود مافیاء کی ملی بھگت سے مہنگی ہوئی پڑی ہیں۔  اگر دیکھا جائے تو ان میں چینی گھی اور آٹا سر فہرست ہیں۔ چینی اس وقت 100روپے گھی 340روپے اور آٹا 60روپے کلو فروخت ہو رہا ہے  ۔  بجلی اور گیس کے بلوں کی بات کی جائے تو ان میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔   مہنگائی کنٹرول  نہ ہونے پہ  ہر ضلع کے ڈی سی کو پوچھا جائے۔ ناجائز منافع خوروں  کوسخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔ ہر شاپ پر ریٹ لسٹ آویزا کی جائے۔ سرکاری نرخ نامے پہ اشیاء کی خریدو فروخت یقینی بنایا جائے۔ 

اگر عمران خان صاحب مہنگائی پر قابو پا جاتے ہیں تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف  کو کوئی بھی دوبارہ اقتدار میں آنے سے نہیں روک پائے گا۔ خان صاحب نے جس طرح خارجہ امور میں  اپنا لوہا منوایا جس طرح بھارت کو عالمی سطح پر ایکسپوز کیا۔ جس طرح کشمیر کا مقدمہ لڑاامید کی جا سکتی ہے کہ اگلے دو سالوں میں  مہنگائی کے چیلنج  سے بھی نمٹ کر عوام کو  ریلیف دیں گے اور 2023کے  الیکشن میں بھرپور واپسی کریں گے۔ انشاءﷲ

@saif__says

Leave a reply