اس عدالت کے خلاف جتنا کمپین کرنا ہے کریں کوئی فرق نہیں پڑتا،اسلام آباد ہائی کورٹ

0
27

اس عدالت کے خلاف جتنا کمپین کرنا ہے کریں کوئی فرق نہیں پڑتا،اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ ،صحافیوں کو ملک بھر میں ہراساں کرنے کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت ہوئی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی پی ایف یو جے قیادت وکیل شاہ خاور کے ساتھ عدالت پیش ہوئے ،دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کچھ چار جانے مانے صحافیوں نے کہا کہ میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پھر سے واضح کردوں کہ اس عدالت کے خلاف جتنا کمپین کرنا ہے کریں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہر قسم کی کمپین چلائی گئی اور چلاتے ہیں مگر یہ عدالت متاثر نہیں ہوتی، سچ نے ایک دن باہر ہی انا ہے،صحافیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو کررہے ہیں کیا وہ درست ہیں؟ ہر عدالت کی رپیوٹ ان کے فیصلوں اور کنڈکٹ سے ہوتی ہے ، کسی جج کا کچھ چھپتا نہیں، کورٹ رپورٹرز بہتر جانتے ہیں، جس نے جو کرنا ہے کرے فرق کوئی نہیں پڑتا، مگر سوچیں کہ آپ کیا کررہے ہیں، کاشف عباسی یہاں موجود ہیں انہوں نے اس عدالت پر بھرپور تنقید کی، آپ اس عدالت پر جتنا تنقید کرے اس عدالت کو خوشی ہوتی ہے، عدالت تنقید سے کبھی کسی کو نہیں روکے گی، مگر صحافی صرف اتنا بتائے کہ یہ عدالت کس طرف ہے، بڑے صحافی مجھے بتا رہے ہیں جس چیز کا مجھے نہیں پتہ، مگر وہ قوم کو بتا رہے ہیں،وقت اور تاریخ بتائے گی کہ یہ عدالت کس طرف ہے،نہ یہ عدالت پہلے کسی چیز سے متاثر ہوئی اور نہ اب ہوگی،میرے خیال میں یہ واحد عدالت ہے جس پر ہر قسم کی کمپین چلائی گئی،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تنقید اس عدالت کی طاقت ہے، شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ صحافیوں پر کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج کئے گئے، درخواست گزار کو کراچی میں گرفتار کرلیا گیا اور پھر عدالت نے ڈسچارج کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کو تین سالوں سے لگ رہا ہے کہ صحافی ہی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، آج تک ہم آئین کو مکمل طور پر بحال نہ کرسکے، اگر اس ملک میں آئین مکمل طور پر بحال ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوگا،افضل بٹ نے عدالت میں کہا کہ آپ نے فیصلہ دیا تھا کہ صحافیوں کے حوالے سے ایف آئی اے اور پی ایف یو جے معاملات دیکھے، آپکا وہی فیصلہ بیچ آگیا کہ اب دوسری جگہ پر مقدمات ہورہے ہیں، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ ایک صحافی کو پولیس نے گرفتار کیا پانچ دن تشدد کرکے پاس رکھا،پولیس نے پھر صحافی کو ایف آئی اے کو دیا پھر پانچ دن وہاں رہا، یہ حکومت ہی ہے جو یہ سب کررہی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے آپ اس عدالت کو نہیں چھوڑ رہے ہیں، افضل بٹ نے کہا کہ صحافیوں کو اٹھایا جارہا ہے ، دبایا جارہا ہے، اس معاملے کو روکے،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن کیسسز کے حوالے دئیے گئے اتفاق سے وہ سارے کیسسز اس عدالت میں زیر سماعت ہیں، اس خط میں مطیع اللہ جان، اسد طور، ابصار عالم، گل بخاری و دیگر کے نام تھے، لالا اسد پٹھان نے کہا کہ صابر شاکر اور ارشد شریف بھی ایگزائل میں اس ملک سے چلے گئے، عدالت نے کہا کہ اس خط میں یہ نام ہے کیونکہ وہ 2021 میں آیا تھا اب نیا کوئی خط آئے تو اس میں شاید یہ نام ہو، اس معاملے پر جرنلسٹس ایسوسی ایشن، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا، اقوام متحدہ ہمیں یہ سب کیوں بتا رہا ہے،کیا کوئی چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں کا نہیں پتہ، تین سال کہتے رہے یہ عدالت کسی کا دوست ہے اب دوستی تبدیل ہوگئی تو کہتے ہیں کسی اور کا دوست ہے، آپ کو عدالت ہی نہیں آنا چاہیے وفاقی حکومت کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے، عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ لکھ کر دے دیں کہ یہ ریاست نہیں ہے ختم ہو گئی ہے،اقوام متحدہ کا رپٹ وار والا خط ان سب کے لیے بہت ہے، کیا موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ رپٹ وار کا ایک اور خط ہمارے پاس آئے، آئین کی بحالی کے لئے فریڈم آف سپیچ پر قدغن نہیں ہونی چاہیے، اس عدالت کے حوالے سے ہمیشہ غلط کمپئین چلائی گئی ہیں

شادی اس بات کا لائسنس نہیں کہ شوہر درندہ بن کر بیوی پر ٹوٹ پڑے،عدالت

خواجہ سراؤں کا چار رکنی گروہ گھناؤنا کام کرتے ہوئے گرفتار

چار ملزمان کی 12 سالہ لڑکے کے ساتھ ایک ہفتے تک بدفعلی،ویڈیو بنا کر دی دھمکی

ماموں کی بیٹی کے ساتھ گھناؤنا کام کرنیوالا گرفتار

پانی پینے کے بہانے گھر میں گھس کر لڑکی سے گھناؤنا کام کرنیوالا ملزم گرفتار

زبانی نکاح،پھر حق زوجیت ادا،پھر شادی سے انکار،خاتون پولیس اہلکار بھی ہوئی زیادتی کا شکار

اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ آپ کے حوالے اچھی باتیں بھی ہوتی رہی، آپ کے آنے کا ہی انتظار تھا،افضل بٹ نے کہا کہ پانچ تاریخ تک ان کو منع کرے کہ کسی کو گرفتار نہ کرے، جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت ایسی کوئی بلنکٹ آرڈر جاری نہیں کرسکتی، شاہ خاور نے کہا کہ وزارتِ داخلہ سے صحافیوں سے متعلق مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا جائے، عدالت نے کہا کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار صوبائی حکومتوں تک تو نہیں ہیں، وکیل نے کہا کہ یہ عدالت وفاقی وزارت داخلہ سے ریکارڈ منگوا لیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ وہ لسٹ بتائیں کہ کونسے صحافی ہیں جن کے ساتھ ایسے واقعات ہورہے ہیں،ایگزیکٹو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکام ہوگئے، صحافیوں کو ملک بھر میں گرفتار اور ہراساں کیا جارہا ہے،

Leave a reply